اب تک ہم کائنات کی توانائی اور انسان کی اپنی انرجی باڈی کے بارے میں پڑھ چکے ہیں۔ انسان کی کئی انرجی باڈیز ہوتی ہیں جو مختلف کام کرتی ہیں۔ ان ہی میں ایک “سیلیسٹئیل” باڈی ہوتی ہے جو اسے کائناتی اجسام سے جوڑے رکھتی ہے۔ میں اس کا ذکر ہرگز نہ کرتا اگر حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ کے یہاں اس کی اصل “فیوض الحرمین” میں نہ دیکھتا۔ شاہ صاحبؒ نے اسے “حقیقت روحیہ” کے نام سے ذکر فرمایا ہے۔شاہ صاحبؒ علوم ظاہری و باطنی، دونوں کے نہ صرف حامل ہیں بلکہ علم حدیث میں خصوصی حیثیت رکھتے ہیں۔ بر صغیر پاک و ہند کی اکثر اسناد حدیث شاہ صاحبؒ سے گزرتی ہیں۔ مزاجاً بھی وہ تحقیقی اور غیر تقلیدی طبیعت رکھتے ہیں۔ لہذا ان کی گفتگو کو ایک صوفی عالم کی گفتگو کہہ کر نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ مجھے طبعی طور پر حضرت تھانویؒ کے واسطے سے حضرت شاہ صاحبؒ سے مناسبت ہے۔
کائنات میں موجود ہر چیز میں روح ہے۔ ہم اس روح کو سمجھنے کے لیے توانائی کہہ سکتے ہیں۔ ہم ابتدا میں تفصیلی گفتگو کر چکے ہیں کہ مادہ توانائی کی ہی ایک قسم ہے اور خود مادے میں توانائی موجود ہوتی ہے۔ لیکن اس کو اگر درست طریقے سے سمجھا جائے تو کائناتی مظاہر کو ہم دو چیزوں “زمین” اور “آسمان” میں تقسیم کر سکتے ہیں۔ زمین سے مراد وہ تمام عناصر اور اشیاء ہیں جو ہمارے نیچے اور اردگرد ہیں جب کہ آسمان سے مراد ہوا اور اس سے باہر سورج، چاند، سیارے، ستارے حتی کہ خلاء بھی ہے۔ یہ تمام اشیاء اس حد تک روح رکھتی ہیں کہ یہ باقاعدہ گفتگو کو سمجھتی ہیں۔ چنانچہ خود قرآن کریم میں ذکر ہے “اس (آسمان) اور زمین کو کہا: چاہو یا نہ چاہو، چلے آؤ! ان دونوں نے کہا ہم بخوشی حاضر ہیں۔” اور “بے شک ہم نے امانت کو آسمانوں، زمین اور پہاڑوں پر پیش کیا تو وہ اسے اٹھانے سے رک گئے اور اس سے ڈر گئے۔” اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ان سب چیزوں میں حیات، روح اور شعور ہے۔ احادیث مبارکہ میں تو اس کے کئی واقعات ہیں۔
انسانی جسم مشتمل ہے مادے اور توانائی پر اور یہ توانائی ہمارے ارد گرد پھیلی ان تمام چیزوں کی توانائی کا ایک ایک جزو خود میں رکھتی ہے۔ چنانچہ ان چیزوں کا اثر بھی اس توانائی پر ہوتا ہے۔ اب تو بہت کم ہے لیکن قدیم عاملین کئی عملوں میں مخصوص چیزوں جیسے ہرن کی کھال، تانبے، چاندی، سونے وغیرہ کا استعمال کرتے تھے۔ اب بھی بہت سے عاملین ان چیزوں پر الواح بناتے ہیں اور ہر چیز کا الگ اثر بتاتے ہیں۔ یہ اثر ان چیزوں کے ان خواص کی بنا پر ہوتا ہے جن کا تعلق انرجی سے ہوتا ہے۔ آپ کہہ سکتے ہیں کہ عاملین کا یہ کاروبار ہے اور وہ بے وقوف بناتے ہیں اور یہ بڑی حد تک حقیقت بھی ہے۔ لیکن ایسے عاملین بھی موجود ہیں اور جادوگر بھی جو حقیقتاً کام کرتے ہیں اور صرف بے وقوف نہیں بناتے۔
علم نجوم
کائناتی مظاہر میں دوسری بڑی چیز آسمان ہے اور اس میں وہ سیارے ہیں جو ہمارے نظام شمسی کا حصہ ہیں۔ یہ سب بھی اپنی اپنی انرجی رکھتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ انسانی جسم کے چکروں میں سے ہر ایک کسی ایک سیارے کی قوت رکھتا ہے اور اس سے متاثر ہوتا ہے۔ چنانچہ علم نجوم کی بنیاد یہی ہے کہ سیارگان کی حرکت سے انسانی جسم اور اس کے ارد گرد موجود توانائی متاثر ہوتی ہے۔یہ علم کہاں سے آٰیا؟ امام غزالیؒ نے “المنقذ” میں لکھا ہے کہ یونانی فلاسفہ و حکماء نے علم نجوم انبیاء کے صحیفوں سے لیا تھا۔ یہ بات اس روایت سے مضبوط معلوم ہوتی ہے جو نبی کریم ﷺ سے امام مسلمؒ نے روایت فرمائی ہے کہ “انبیاء میں سے ایک نبی خط (غالباً علم رمل) استعمال کرتے تھے، تو جس کا علم ان کے موافق ہوگا تو ویسے ہی (حکم) ہوگا۔” اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ علوم واقعتاً انبیاء کے صحف میں تھے کیوں کہ اس زمانے میں ان کی ضرورت تھی۔ بعد میں یہ ختم ہو گئے۔
علم نجوم کے استعمال کی دو قسمیں ہیں۔ پہلی قسم وہ ہے جس میں کسی شخص، جگہ یا موقع کے احوال اور مزاج کا اندازہ نجوم سے لگایا جاتا ہے اور دوسری قسم وہ ہے جس میں کسی مستقبل کے واقعے کی پیش گوئی ہوتی ہے۔ میں دونوں کی وضاحت کرتا ہوں اور ساتھ ہی ان پر کچھ تبصرہ بھی کرتا ہوں:
قسم اول:
اس میں کسی شخص، جگہ یا موقع کے احوال اور مزاج جانے جاتے ہیں۔ مثلاً ایک نجومی کسی شخص کا وقت پیدائش اور جگہ معلوم کرتا ہے اور حساب لگاتا ہے اس شخص کی پیدائش کے وقت کون سا سیارہ کون سے برج میں تھا اور اس شخص کا اپنا برج اور سیارہ کیا ہے؟ اب ایک شخص اگر دسمبر میں پیدا ہوا ہے تو اس کا برج قوس اور سیارہ مشتری ہے، یعنی اس میں مشتری کی خصوصیات “مہم جوئی” اور “آتشی مزاج” ہوں گی۔ یہ خصوصیات اس کے سولر پلیکسس چکرے کا خاصہ ہیں۔ اس کے علاوہ دیگر سیاروں کی پوزیشن بھی اہمیت اور اپنے اپنے مطلب رکھتی ہے۔
اسی طرح جگہوں کا بھی حساب لگایا جاتا ہے کہ فلاں تاریخ کو فلاں جگہ پر کس کس سیارے کی انرجی پڑ رہی ہے۔ اس جگہ پر اس سیارے کی انرجی کے مطابق کوئی اچھا یا برا عمل کیا جا سکتا ہے۔ اسی طرح مواقع یعنی وقت کا اندازہ بھی لگایا جاتا ہے کہ فلاں شخص جس کا سیارہ فلاں ہے، اس کے لحاظ سے کون سا وقت کسی کام کے لیے اس اعتبار سے موزوں ہوگا کہ اس کے موافق انرجی اسے مل رہی ہوگی۔
یہ ایک مکمل علم ہے اور ہمارے پاس جو واقعاتی شہادتیں موجود ہیں ان کی روشنی میں یہ حقیقت ہے کہ ستر پچھتر فیصد تک یہ علم مزاج کے بارے میں بالکل درست نشان دہی کرتا ہے۔ مثلاً میرے بیٹے کے بارے میں یونانی علم نجوم کہتا ہے کہ وہ صاف گو اور براہ راست ہے، اور دو سال کا یہ بچہ واقعی ایسا ہے جب کہ بیٹی اس سے اس علم کے مطابق اور حقیقت میں بالکل الٹ ہے۔ لیکن اس میں مندرجہ ذیل مسائل ہیں:
اول: اس علم کی کوئی بنیاد نہیں ہے۔ اس کا بڑے پیمانے پر تجربہ اتنی آسانی سے ممکن نہیں ہے کیوں کہ یہ کوئی میڈیکل کا تجربہ نہیں ہے بلکہ نفسیات اور کردار کا تجزیہ ہے۔ جہاں تک بات ہے صحف میں موجود علم کی تو ان کی کوئی کاپی آج موجود نہیں ہے۔
دوم: اس علم میں بڑے پیمانے پر اختلافات ہیں۔ چنانچہ یونانی علم نجوم الگ ہے، ہندی الگ، چینی الگ، مصری الگ، مایا الگ اور تبتی الگ ہے۔ ایک ہی وقت میں ایک ہی سیارے سے اتنے سارے معانی کیسے درست سمجھے جا سکتے ہیں؟
سوم: ان مظاہرکے انسانی چکروں یا اعضاء سے تعلق میں بھی اختلاف ہے۔ چنانچہ کوئی عطارد کی جگہ کچھ مقرر کرتا ہے اور کوئی کچھ اور۔
چہارم: ان مظاہر کی حرکات اور ان کی بنا پر اثرات و خواص میں بھی اختلاف ہے۔ ایک ہی چیز ایک قسم میں مثبت اور دوسری میں منفی ہو سکتی ہے۔ دلیل کسی کے پاس نہیں ہے اور نہ ہی مشاہدہ، تو کسی کو درست سمجھا ہی نہیں جا سکتا۔
پنجم: اکثر اوقات کسی انسان کا مزاج ارد گرد موجود ماحول اور تجارب سے بدل جاتا ہے یا چھپ جاتا ہے۔ ایسے میں اس کا نتیجہ غلط ہو سکتا ہے۔ جیسے اس علم کے بقول میں وقت کا پابند ہوں لیکن اگر مجھ میں کوئی ایسی بیماری ہو جو مجھے سست رکھتی ہو تو میں وقت کا پابند نہیں ہو سکتا۔
لہذا میری رائے یہی ہے کہ اس علم پر اس حد تک بھروسہ کرنا بھی ایک بے بنیاد بات پر بھروسہ کرنا ہے۔ البتہ اس کی بنیاد کو سمجھ لینا چاہیے اور عاملین کو خاص طور پر اس پر نظر رکھنی چاہیے کیوں کہ کئی قسم کی بندشیں وغیرہ سیاروں کی ساعات میں کی جاتی ہیں۔
قسم دوم:
اس میں مستقبل کے کسی واقعے کی امکانی پیش گوئی ہوتی ہے۔ اس کا طریقہ یوں ہوتا ہے کہ اگر کسی شخص کا زائچہ معلوم ہے تو اس کے مطابق اس کا ستارہ اور اس کے خواص بھی معلوم ہوں گے۔ جس طرح ستاروں کے خواص ہوتے ہیں اسی طرح ان کے آسمانی مقامات یعنی بروج کے بھی خواص ہوتے ہیں۔ یہ خواص بعض اوقات ایک دوسرے کے مناسب ہوتے ہیں اور بعض اوقات مخالف۔ اسی طرح کچھ ستاروں کی انرجی کی خصوصیت ہوتی ہے کہ وہ کسی برج میں بڑھ جاتی ہے یا کم ہو جاتی ہے۔ ایسے میں علم نجوم کے مطابق اس شخص پر اس کا اثر ہوگا۔ اگر ہم گہرائی میں جائیں تو اس کے چکروں اور انرجی باڈی پر اثر ہوگا۔ لہذا پیش گوئی کی جاتی ہے کہ اس شخص کے لیے فلاں وقت اچھا ہے یا برا؟ اور اسے کیسی چیزیں پیش آ سکتی ہیں؟
اسی طرح جگہ (ملک وغیرہ) اور اوقات کے بارے میں پیش گوئی کی جاتی ہے کہ فلاں ملک میں فلاں ستاروں کا فلاں وقت پر اثر ہوگا تو ملک کے حالات ایسے ایسے ہوں گے۔ ہمارے ایک سابقہ وزیر اعظم کے بارے میں معروف ہے کہ وہ ستاروں کی بنیاد پر سیاسی اور ملکی فیصلے کیا کرتے تھے۔ عقلی طور پر جب ستاروں کی خصوصیات اور چالوں میں ہی گزشتہ قسم میں مذکور مسائل ہیں اور وہی انتہائی غیر یقینی اور تکے بازی پر مشتمل ہیں تو پھر ان کی بنیاد پر نتیجہ بھی ایسا ہی ہوگا۔ چنانچہ کبھی تو یہ اندازے درست ہو جاتے ہیں اور کبھی بالکل غلط۔ اس کے علاوہ انسان کے نیک اعمال، استغفار، صدقہ وغیرہ سے بھی بلائیں ٹل جاتی ہیں تو اس پر اثر نہیں ہوتا۔ نیز مضبوط انرجی باڈی رکھنے والا شخص بھی محفوظ رہتا ہے۔
عملاً اس طرح کی بے بنیاد چیزوں پر یقین رکھنا ایک انسان کے لیے عموماً اور ایک مسلمان کے لیے خصوصاً انتہائی خطرناک ہے۔ اس سے کوئی فرد وہمی ہو جاتا ہے اور اپنی زندگی کے فیصلے اسی کے مطابق کرنا شروع کر دیتا ہے۔ چنانچہ نبی کریم ﷺ نے اس حوالے سے سخت وعید ارشاد فرمائی ہے: “جو شخص کسی مستقبل بتانے والے کے پاس گیا اور اس سے کسی چیز کے بارے میں پوچھا تو اس کی چالیس دن کی نمازیں قبول نہیں ہوں گی (مسلم)” اور ” جو شخص کسی مستقبل بتانے والے کے پاس گیا اور اس کی تصدیق کی تو اس نے محمد پر نازل شدہ دین کا انکار کیا (ابو داؤد)۔”
دونوں احادیث صحیح ہیں اور معنی یہ بنتا ہے کہ صرف پوچھنے پر چالیس دن کی نمازوں کی قبولیت نہیں ہوگی (یعنی فرض تو ادا ہوگا لیکن ثواب نہیں ملے گا) اور تصدیق کرنے پر ایمان سے خارج ہو جائے گا۔ ان احادیث کے بعد الگ سے کوئی حکم بتانے کی ضرورت نہیں رہ جاتی۔ چالیس دن میں انسان کی اندرونی کیفیت تبدیل ہوتی ہے۔ نجومی یا “فرچیون ٹیلر” کا منفی اثر اتنا ہے کہ صرف پوچھنے پر چالیس دن تک کی کیفیت متاثر رہتی ہے اور آہستہ آہستہ روح واپس صاف ہوتی ہے۔ البتہ یہ مستقبل کی کسی چیز کو جاننے کے بارے میں ہے۔ جہاں تک بات ہے مزاج معلوم کرنے کی تو اگرچہ وہ ایک کمزور چیز ہے لیکن کچھ علماء کرام کے نزدیک حکیموں کے نبض دیکھنے کی طرح اس کی گنجائش ہے (مستفاد من فیوض الحرمین، فتوی بنوری ٹاؤن)۔ لیکن فائدہ اس کا بھی کم ہی ہے۔