خود انحصاری
تحریر کھولیے
بائیکاٹ! بائیکاٹ! بائیکاٹ!
ہم یہ نعرے اکثر سنتے ہیں۔ کوئی عالمی واقعہ ہوتا ہے، ملک اور پوری اسلامی دنیا میں شور مچتا ہے اور بائیکاٹ شروع ہو جاتا ہے۔ یہ بائیکاٹ عموماً چھ مہینے سے سال تک رہتا ہے اور پھر ختم ہو جاتا ہے۔ اس دوران میں ہمارے خیال سے نقصان بڑی کمپنیوں اور برانڈز کو ہوتا ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ ان کا نقصان بس صرف ایک سال کے منافع کی کمی کی شکل میں ہوتا ہے۔ زیادہ نقصان ہمارے ملکی فرنچائزر، کمپنی اور ڈسٹری بیوٹرز کو ہوتا ہے۔ چونکہ کچھ عرصے بعد بائیکاٹ ختم ہو جاتا ہے لہذا وہ مستقل بنیادوں پر اس بیرونی برانڈ کو چھوڑ بھی نہیں سکتے۔ وہ صرف عارضی نقصان برداشت کرتے ہیں، ملازمین کو جاب سے فارغ کرتے ہیں، ٹیکس کم ادا کرتے ہیں اور سب کچھ دوبارہ پہلے کی طرح ہو جاتا ہے۔
اس سب کا حل کیا ہے؟ اس کا حل ہے “خود انحصاری”۔ یعنی “اپنا اگاؤ، اپنا بناؤ اور اپنا کھاؤ”۔ ہم اکثر ایران اور ترکی کی مثالیں دیتے ہیں کہ وہ کیسے اپنی ضرورت کی چیزیں خود بناتے ہیں! کیسے عالمی معاشی قوتیں اپنی ضروریات خود پوری کرتی ہیں! لیکن ہم یہ بھول جاتے ہیں کہ ہم ایک ایسے ملک میں رہتے ہیں جہاں قدرت نے ہمیں وسیع ذخائر وافر مقدار میں دیے ہیں جہاں لیبر بھی سستی ہے۔ ہم کسی حد تک معیار اور زیادہ تر اسٹیٹس کے چکر میں باہر کی چیزیں استعمال کرتے ہیں۔ اس کا سب سے پہلا نقصان ہمیں یہ ہوتا ہے کہ ہمارا زر مبادلہ باہر جاتا ہے، کرنسی کی ویلیو کم ہوتی ہے اور مہنگائی بڑھتی ہے۔ اپنے گھر کو دیکھا جائے تو جو چیزیں ہمیں ملکی سطح پر سستی مل سکتی ہیں وہ ہم مہنگی لے کر استعمال کرتے ہیں۔ بھلا کیوں؟
یہ درست ہے کہ بہت سی انٹرنیشنل چیزوں کا معیار بہت اچھا ہوتا ہے، لیکن یہ بھی غلط نہیں ہے کہ کئی ملکی چیزیں وہی یا اس کے قریب ترین معیار ہمیں مہیا کرتی ہیں۔ ہم ملکی چیزوں سے معیار کی توقع رکھتے ہیں لیکن انہیں خریدتے نہیں ہیں جس سے ان کے پاس رقم آئے، کنزیومر بیس بنے اور وہ معیار بڑھانے پر قادر بھی ہو سکیں اور مجبور بھی۔ یاد رہے ہر کمپنی سیلز کی کمی سے متاثر ہوتی ہے اور سیلز کی کمی تب نظر آتی ہے کسی چیز کو لوگ خرید کر چھوڑنا شروع کریں۔ کمپنی مجبور ہوتی ہے کہ وہ لوگوں کو راضی کرے یا مارکیٹ سے آؤٹ ہو جائے۔ اگر ہم ابتدا میں ہی خریدیں گے نہین تو سیلز کی کمی بھی نظر نہیں آئے گی اور یوں کمپنی “جو ہے، سو ہے” کی بنیاد پر چلتی رہے گی۔ لہذا آگے بڑھیے! اپنے ملک کی چیز استعمال کیجیے! ملک کو بھی فائدہ پہنچائیے اور اپنے گھریلو بجٹ کو بھی کنٹرول میں لائیے!
یہ بھی ذہن میں رہنا چاہیے کہ ہر چیز ملک میں معیاری نہیں ملتی۔ بعض اوقات چیزوں میں بہت فرق ہوتا ہے۔ ایسے وقت پر ہمیں مجبوراً بیرونی چیز استعمال کرنی پڑتی ہے۔ اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ اسی طرح کبھی کبھار بیرونی چیز کے استعمال میں بھی کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ لیکن عمومی ترجیح اور عادت ملکی چیز کو دینی چاہیے، اس کا کافی بڑا اثر ہوتا ہے۔ خود انحصاری ایک لانگ ٹرم اثر رکھنے والی چیز ہے۔ اسے اپنائیے! اپنے لیے بھی اور ملک کے لیے بھی!
یہاں جو لسٹ نیچے دی گئی ہے اس کا بنیادی کام مفتی سفیان بلند صاحب کے ادارے کی کچھ طالبات کا کیا ہوا ہے، اللہ پاک انہیں جزائے خیر دیں! میں نے اسے آسان اور تلاش کے قابل بنایا ہے تاکہ ہمارے لیے اس کے مطابق خرچ کرنا آسان ہو۔ وقت کے ساتھ ان شاء اللہ اس میں مزید ان آپشنز کا اضافہ ہوگا:
- کمپنیز کی لسٹ
- بائیکاٹ کے لیے ملکوں کے حساب سے فلٹر، جس میں آپ جس ملک کا نام ڈالیں گے اس کی مصنوعات سامنے آ جائیں گی۔
- پراڈکٹس کی ریٹنگ تاکہ آپ کو اچھی سے اچھی پراڈکٹ مل سکے۔
- یوزرز کے لیے پراڈکٹس کو ریٹنگ دینے اور ریویو لکھنے کا آپشن
- پراڈکٹس میں اضافہ
- یوزرز کے لیے نئی پراڈکٹس کا ریکارڈ ڈالنے کی سہولت
دعاؤں میں یاد رکھیے! کوئی تبدیلی ضروری ہو یا اسٹوڈنٹ لیول کام کی وجہ سے غلطی سامنے آئے تو مجھے اس واٹس ایپ نمبر پر اطلاع دیجیے: 03333634712
و السلام
محمد اویس پراچہ