گیارہواں حصہ: عالم مثال، خواب اور کشف

کشف، خواب، عالم مثال

یہاں ایک بہت اہم چیز سمجھنے کی ہے جسے “عالم مثال” کہتے ہیں۔ عالم مثال ایک روحانی دنیا ہے جو ہمارے اردگرد ہے۔ آسانی کے لیے یوں سمجھیے کہ انرجی سے ہی بنی ایک دنیا ہے۔ ہماری مادی دنیا میں کوئی کام ہونے سے پہلے وہ کام عالم مثال میں ہوتا ہے اور پھر وقت کے ساتھ ساتھ مادی دنیا میں اترتا ہے۔ اگر کسی کی رسائی اس عالم مثال تک ہو جائے تو وہ مستقبل قریب کی پیش گوئی کر سکتا ہے کیوں کہ اس کے لیے وہ علم غیب یا مستقبل کا علم نہیں ہوتا۔ وہ ایک ایسی جگہ اسے دیکھ رہا ہوگا جہاں وہ کام ہو چکا ہے۔ لیکن اس تک ہمیشہ اور مکمل رسائی ممکن نہیں ہوتی۔ کبھی کبھار جھلک نظر آتی ہے۔

آپ نے کچھ بزرگوں کے بارے میں سنا ہوگا یا شاید دیکھا بھی ہو کہ انہوں نے کسی موقع پر کہا کہ فلاں کام ہوگا یا نہیں ہوگا۔ حضرت نظام الدین اولیاءؒ کے بارے میں منقول ہے کہ بادشاہ غیاث الدین تغلق نے انہیں پیغام پہنچایا کہ میرے دہلی پہنچنے سے قبل دہلی چھوڑ دو۔ انہوں نے جواب میں فرمایا “ہنوز دلی دور است (ابھی دہلی دور ہے)۔” بادشاہ دہلی کے قریب پہنچ تو گیا لیکن داخل ہونے سے پہلے مر گیا۔ بظاہر آپؒ کو اس کی موت عالم مثال میں نظر آئی تھی اور آپ نے دیکھا کہ دہلی تو وہ اس کے بعد پہنچے گا۔ اسی طرح کی کچھ اور چیزیں آپ کو کئی جگہ نظر آئیں گی۔ یہ عالم مثال کی غیر اختیاری جھلک ہوتی ہے۔

بہت سے لوگ یہ کہتے ہیں کہ بعض اوقات جب کوئی کام ہو رہا ہوتا ہے تو ہمیں پہلے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ کام اسی طرح ہوگا۔ میں مثال دوں تو یہ اس طرح ہوتا ہے کہ آپ کا کوئی دوست آیا اور اس نے آپ سے کہا کہ یار میرا بچہ بیمار ہے، کچھ رقم قرض چاہیے۔ آپ نے دراز سے نکال کر اسے دی۔ اسی لمحے آپ کو یاد آتا ہے کہ یہ کام تو شاید پہلے اسی طرح ہو چکا ہے اور بعینہ یہی معاملہ ہوا تھا۔ یہ آپ کی یاد داشت میں کسی فلم کی طرح ہوتا ہے، حالانکہ اس سے پہلے یہ کبھی نہیں ہوا ہوتا۔ یہ در حقیقت عالم مثال میں ہوا ہوتا ہے اور آپ کے سوتے میں یا کسی اور وقت آپ کی تھرڈ آئی نے وہاں دیکھ کر یاد داشت میں محفوظ کر دیا ہوتا ہے۔

تھرڈ آئی اور عالم مثال

عالم مثال میں دیکھنا تھرڈ آئی کا کام ہے کیوں کہ وہی انرجی کی دنیا سے کنکشن رکھتی ہے۔ یہ عموماً نیند کی ایک مخصوص کیفیت میں کام کرتی ہے لیکن چونکہ اس کی چیز یاد رکھنا بہت مشکل ہوتا ہے اس لیےبہت سے لوگ اسے جاگتے میں استعمال کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس کے لیے “ٹیرٹ کارڈز”، “گلوب”، “لوسڈ ڈریمنگ (نیند میں خود پر کنٹرول)” اور “وژن” کیچ کرنے وغیرہ کی کوششیں کی جاتی ہیں۔

انسان کا رابطہ حالت خواب میں بعض اوقات عالم مثال سے ہو جاتا ہے۔ اس کی تفصیل یہ ہے کہ انسانی ذہن کی فریکوئنسی کی کئی قسمیں ہوتی ہیں۔ ان میں اعشاریہ پانچ سے لے کر چار ہرٹز تک (ڈیلٹا ویوز) گہری نیند اور چار سے آٹھ ہرٹز تک (تھیٹا ویوز) خوابوں بھری نیند کے لیے ہوتی ہیں۔ نیند کے عالم میں عموماً انسانی جسم کی ریپئیرنگ ہوتی ہے جسے ہم تھکن اترنے کا نام دیتے ہیں۔ اس ریپئیرنگ کے لیے آپ کا سونا بالکل ضروری نہیں ہے بلکہ اگر آپ کسی جگہ چند گھنٹے غیر متحرک لیٹے رہیں تو بھی یہ کام ہو جائے گا۔ چنانچہ مجھے کبھی کسی شور والی جگہ پر سونا ہو جہاں نیند نہ آ پائے تو میں خود کو گہرے مراقبے والی کیفیت میں لے جاتا ہوں اور تھکن اتر جاتی ہے۔ یہ تھیٹا ویوز کی کیفیت ہوتی ہے۔

جب انسان سوتا ہے تو اس کی روح قبض کر لی جاتی ہے، یہ قرآن کریم میں ہے۔ اس قبض کی صورت کیا ہوتی ہے؟ تو اس کی صورت بظاہر یہ ہوتی ہے کہ اس کے احساسات اور سوجھ بوجھ کم ہو جاتے ہیں (ماخوذ من القرطبی وغیرہ)۔ یعنی اس کا دماغ اتنے کم ویو میں چلا جاتا ہے کہ اس کا مادی اجزاء اور انرجی باڈیز کو یکجا رکھنے کا عمل بالکل معمولی ہو جاتا ہے۔ ایسے میں اس کی انرجی باڈی ارد گرد موجود انرجیز سے تعامل کرتی ہے اور ان سے انفارمیشن لینا شروع کر دیتی ہے۔ عموماً اسے دو الفاظ سے ذکر کیا جاتا ہے: “اس کی روح سفر کرنے لگتی ہے” اور “اس کے روحانی اجزاء اتنے پھیل جاتے ہیں کہ دور دراز پہنچ جاتے ہیں”۔ لیکن میرے خیال میں اس کے لیے بہتر تعبیر یہ ہے کہ اس کی انرجی باڈی دیگر انرجیز سے کنکشن کر لیتی ہے۔

انرجی ایسی چیز ہے کہ اس کے کنکشن کی کوئی حد نہیں ہوتی۔ چنانچہ ہم ریکی میں بسا اوقات ایک شہر میں بیٹھے کسی دوسرے شہر میں موجود شخص کی ہیلنگ بآسانی کر سکتے ہیں۔ جب انرجی باڈی کنکشن شروع کرتی ہے تو اس کا کنکشن دنیا میں موجود دیگر لوگوں کی انرجی باڈیز سے بھی ہوتا ہے اور عالم مثال، عالم برزخ وغیرہ سے بھی۔ اس میں ملاء اعلی تک جانے کی قدرتی صلاحیت رکھی گئی ہے۔ وہ عالم برزخ میں کسی شخص کی روح سے کنکشن کرتی ہے تو اس کی انفارمیشن اسے ملتی ہے اور عالم مثال میں کسی مستقبل میں ہونے والے کام کو دیکھتی ہے تو اس کی انفارمیشن ملتی ہے۔ یہ انفارمیشن وہ دماغ تک پہنچا دیتی ہے۔

دماغ، عالم مثال اور خواب

دماغ جب ڈیلٹا ویوز میں ہوتا ہے تو وہ کچھ سوچ سمجھ نہیں سکتا۔ چنانچہ وہ آنے والی انفارمیشن کا نہ تو تجزیہ کرتا ہے اور نہ اسے محفوظ کرتا ہے۔ جب دماغ تھیٹا ویوز میں آتا ہے تو وہ تین طرح کی انفارمیشن کو محسوس کرنے لگتا ہے: اس کی روح یا انرجی باڈی سے آنے والی، اس کے جسم سے آنے والی اور بیرونی قوت (مثلاً شیاطین وغیرہ) کی جانب سے آنے والی۔ ان میں انرجی باڈی سے آنے والی انفارمیشن انرجی کی ہی شکل میں ہوتی ہے۔ دماغ اسے ٹرانسلیٹ کرتا ہے اور ٹرانسلیشن کے لیے اس کے پاس ڈکشنری صرف اس کا تجربہ ہوتی ہے۔ چنانچہ وہ اسے اسی شکل میں ظاہر کر دیتا ہے۔

مثلاً انرجی باڈی نے ایک دشمن کی انفارمیشن شئیر کی، دماغ بچپن سے کتے اور سانپ کو دشمن سمجھتا آ رہا ہے تو وہ ٹرانسلیشن یوں کرتا ہے کہ انسان کے پیچھے کتا لگا ہوا ہے۔ اب اگر انفارمیشن یہ ہے کہ دشمن نے نقصان پہنچایا ہے تو وہ دکھاتا ہے کہ کتے نے کاٹ لیا ہے اور اگر انفارمیشن یہ ہے کہ نقصان نہیں پہنچا سکا تو وہ دکھاتا ہے کہ کاٹ نہیں سکا۔ ساتھ ہی وہ خوف کا ایک ماحول بھی بناتا ہے۔ اب چونکہ ہر بندے کے تجارب مختلف ہیں تو اس کے دماغ کی ٹرانسلیشن بھی مختلف ہوگی۔ ایک اونٹ پالنے والے کے لیے اونٹ ایک زبردست قسم کا مال ہے اور ایک شہری بابو کے لیے خوف اور کینے کی علامت۔ چنانچہ ایک ہی خواب کی تعبیر دو بندوں کے لیے مختلف ہوتی ہے۔

عالم مثال میں یہ انفارمیشن اس کام کی ہوتی ہے جو ابھی مادی دنیا میں نہیں ہوا ہوتا یا ابھی حال میں جاری ہوتا ہے۔ چنانچہ خواب بھی مستقبل میں یا حال میں ہونے والے کام کا بتا رہا ہوتا ہے۔ لیکن انفارمیشن چونکہ صرف عالم مثال سے نہیں آتی بلکہ جسم سے اور شیطان سے بھی آتی ہے تو ہر خواب درست نہیں ہوتا۔ مثلاً کسی شخص کو سخت ٹھنڈ کا نزلہ ہے اور وہ خواب میں پانی یا سمندر دیکھتا ہے تو یہ اس کے ٹھنڈے مزاج کی وجہ سے ہے۔ اور کوئی شخص بغیر کسی ایسی چیز کے سمندر دیکھتا ہے تو یہ کثرت رزق کی جانب اشارہ ہے۔ اس میں سب سے آسان کام یہ ہے کہ برا خواب شیطان کی طرف سے سمجھیں، اعوذ باللہ پڑھ کر بائیں جانب تھتھکار کر سو جائیں اور دوسرے دن صدقہ دے دیں کہ اگر کوئی برائی آنی بھی ہوگی تو صدقے سے ٹل جائے گی۔ اچھا خواب دیکھیں تو اس کی تعبیر معلوم کر لیں لیکن تعبیر سے پہلے تعبیر کرنے والے کو اپنی مکمل تفصیل بتائیں۔

کشف

عالم مثال میں رابطہ بعض اوقات مراقبے میں ہو جاتا ہے اور بعض اوقات عام حالات میں جسے ہم کشف کہتے ہیں۔ کشف بھی مختلف قسم کے ہوتے ہیں۔ ایک کشف عالم مثال کا ہوتا ہے۔ اس میں کوئی شخص جاگتی حالت میں ہوتا ہے لیکن اس کا تھرڈ آئی چکرا اچانک عالم مثال سے کوئی واقعہ دیکھ لیتا ہے تو کہا یہ جاتا ہے کہ اسے فلاں واقعے کا کشف ہو گیا۔

دوسرا کشف خیالات کا ہوتا ہے۔ یہ ٹیلی پیتھی قسم کی چیز ہوتی ہے۔ اس میں ایک شخص کے خیالات دوسرے کے ذہن میں آ جاتے ہیں۔ کبھی مکمل خیال ہوتا ہے اور کبھی خیال کا کوئی ٹکڑا۔انسانی دماغ خیالات کی لہریں بناتا ہے اور ان لہروں یا ویوز کی اپنی شکل ہوتی ہے جو انسان کے گفتگو کے انداز میں ہوتی ہے۔ دنیا میں ہر شخص کا اندز گفتگو دوسرے سے کچھ نہ کچھ مختلف ہے۔ اب اگر ایک شخص دوسرے کے دماغ کو کاپی کر لے اور اپنے دماغ کی لہریں بالکل اس کے انداز گفتگو میں بنا لے تو دوسرے کی لہروں کی ایک نقل اس کے دماغ میں بننے لگ جائے گی۔ لیکن مستقل طور پر ایسا کرنا تقریباً ناممکن ہوتا ہے کیوں کہ دماغ اپنی ذاتی شناخت نہیں چھوڑ سکتا۔ وہ واپس اپنے انداز میں آ جاتا ہے۔ اس لیے عموماً چھوٹا سا ٹکڑا ہی آ پاتا ہے۔ سنا ہے کہ اس کشف کے لیے باقاعدہ عملیات بھی ہوتے ہیں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn