بارہواں حصہ: کشف، توجہ، تصرف، مائنڈ پاورز اور دجال

کشف، توجہ، تصرف، دجال

اس پر گفتگو نکلی ہی ہے تو کچھ مزید عرض کرتا ہوں۔ دنیا میں عموماً پانچ چھ قسم کی صلاحیتیں پائی جاتی ہیں اور یہ کہانیوں کا حصہ سمجھی جاتی ہیں جب کہ ایسا نہیں ہے۔ ان میں سے تین بہت عام ہیں:

اول: ٹیلی پیتھی:

ٹیلی پیتھ شخص دوسرے شخص کے خیالات کو اپنے ذہن میں پاتا ہے۔ اس کا طریقہ میں نے گزشتہ قسط میں  ذکر کیا ہے۔ یہ اتفاقی طور پر بہت لوگوں کے ساتھ ہوتا ہے لیکن باقاعدہ مظاہرہ کرنے والے کم ملتے ہیں۔ البتہ تصوف کے سلسلہ نقشبندیہ میں اس کا ایک طریقہ موجود ہے (سلسلہ نقشبندیہ انسانی اندرونی قوتوں کو کسی حد تک بوقت ضرورت استعمال کرتا ہے) جو حضرت شاہ صاحبؒ نے “القول الجمیل” میں لکھا ہے:

“دل کی باتوں پر واقفیت کا طریقہ یہ ہے کہ اپنے نفس کو ہر خیال اور سوچ سے خالی کرے اور اسے دوسرے شخص کے نفس تک پہنچائے۔ پھر اگر اس کے نفس میں انعکاس کے طور پر کوئی بات کھٹکے تو وہی بات اس (دوسرے) کی سوچ ہے۔” غور کیجیے تو اوپر میں نے اسی چیز کو واضح کر کے لکھا ہے۔ لیکن یہ نہ تو مبتدی (تصوف میں ابتدا کرنے والے) کے اختیار میں ہوتا ہے، الا یہ کہ اسے اللہ پاک نے یہ صلاحیت دی ہو اور نہ ہی منتہی یا شیخ کو (جیسا کہ بزرگوں سے سنا کہ) یہ کام عمومی طور پر کرنا چاہیے۔ بعض حضرات میں اس کی قدرتی صلاحیت ہوتی ہے تو وہ مستقل باطنی صفائی اور ذکر اذکار سے کھل جاتی ہے۔

دوم: ایم پیتھی:

ایم پیتھ وہ شخص ہوتا ہے جو کسی دوسرے کے جذبات کو اپنے اندر محسوس کرتا ہے جیسے محبت، خوشی، غم اور  پریشانی وغیرہ۔ اس کا احساس ابتداءً تو ایسا ہوتا ہے جیسے انسان خود پریشان یا خوش ہو، لیکن وقت کے ساتھ اندازہ ہو جاتا ہے کہ یہ احساس کسی اور کا ہے۔ میرے کچھ دوست حیران ہوتے تھے کہ میں ان کے پریشان ہونے کے وقت کال کر کے ان سے پوچھتا ہوں کہ کیا مسئلہ ہے تو مجھے کیسے علم ہو جاتا ہے؟ میں نے کبھی اظہار نہیں کیا۔

سوم: کلیر سینٹیئنس:

یہ وہ شخص ہوتا ہے جو دوسرے کی جسمانی تکلیف کو محسوس کر سکتا ہے۔ اس میں کسی حد تک جذبات کو محسوس کرنا بھی ہوتا ہے لہذا یہ صلاحیت “ایم پیتھ”کے ساتھ کچھ مشترک سی ہوتی ہے۔ صلاحیت رکھنے والا اپنے جسم میں اس جگہ پر تکلیف محسوس کرتا ہے جہاں دوسرے کو ہوتی ہے۔ کچھ تجربے کے بعد اندازہ ہو جاتا ہے کہ یہ تکلیف اپنی ہے یا نہیں۔

جب میری شادی ہوئی تو دو ہفتے بعد ہی ہم عمرے کے لیے گئے۔ وہاں غالباً زیادہ چلنے کی وجہ سے اہلیہ کو کمر میں کچھ تکلیف ہونے لگی۔ اس زمانے میں اتنے بیرئیر ہر جگہ موجود نہیں ہوتے تھے۔ ہم دونوں باب فہد کے بیسمنٹ میں چل رہے تھے۔ میں نے اہلیہ کا ہاتھ پکڑا اور پھر انہیں تفصیل سے بتایا کہ انہیں کہاں کہاں تکلیف ہو رہی ہے۔ اب وہ حیران و ہریشان کے آپ کو کیسے پتا؟ میں بتاتا بھی کیا سوائے اس کے کہ بس مجھے احساس ہو گیا۔ ویسے راز کی بات ہے کہ آپ یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ آپ سے محبت ہی اتنی ہے کہ مجھے بھی درد ہونے لگا ہے۔

بعد ازاں جب میں ہیلنگ کی جانب آیا تو میں نے ان دونوں صلاحیتوں کو بند کر دیا کیوں کہ بطور ہیلر ہم سب لوگوں کی تکالیف اور جذبات برداشت نہیں کر سکتے۔ ان کو بند کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ آپ اپنے دماغ کو بار بار آرڈر دیں کہ دوسرے کی تکلیف کو محسوس نہیں کرنا ہے۔ وہ کچھ وقت میں کنٹرول کر لے گا۔ جذبات کی انرجی زیادہ ہوتی ہے تو یہ بسا اوقات پھر بھی دباؤ کی شکل میں محسوس ہوتی ہے۔ اگر یہ کسی ایسے شخص سے آ رہی ہے جس کی پریشانی، غم یا غصہ آپ محسوس نہیں کرنا چاہتے تو ایک بار دل میں یہ کہیں: “میں محبت اور پیار کے ساتھ اس شخص کی انرجی کو واپس کرتا ہوں” اور ساتھ ہی واپس کرنے کا تصور کریں۔ میں نہیں جانتا کہ انرجی ہیلنگ سے جو وابستہ نہیں ہیں ان کے لیے یہ جملہ کام کرے گا یا نہیں، لیکن اگر کسی کے احساسات اس حد تک ہیں تو کرنا چاہیے۔

کشف احوال

تیسرا کشف احوال کا ہوتا ہے۔اس میں کسی جگہ، شخص یا چیز کی حالت معلوم ہو جاتی ہے۔ یہ بعض اوقات اس سے پھوٹتی انرجی کے ذریعے ہوتا ہے، بعض اوقات اس پر طاری انرجی کی شکل میں اور بعض اوقات اور کسی شکل میں۔ یہ عموماً وہبی ہوتا ہے لیکن کبھی بعض اعمال کے ذریعے بھی حاصل کیا جاتا ہے۔ میری رائے یہ ہے کہ اس کے پیچھے نہیں پڑنا چاہیے۔

کشف کے حوالے سے ایک بات ذہن میں رہنی چاہیے۔ اس کی تینوں قسموں میں وہی مسئلہ ہے جو خواب میں ہے کہ انفارمیشن صرف عالم مثال سے نہیں آ رہی ہوتی بلکہ جسم سے اور شیطان کی جانب سے بھی آ رہی ہوتی ہے۔ اسے حضرت شاہ صاحبؒ یوں لکھتے ہیں (یہ ان کی فیوض الحرمین میں گفتگو کا مفہوم ہے) کہ جب کوئی شخص عالم مثال میں کسی چیز کو دیکھتا ہے اور وہاں سے وہ عالم دنیا میں آتا ہے تو اس کے اپنے علوم و اوہام اس دیکھی ہوئی چیز پر یلغار کر دیتے ہیں۔ ان کے تحت وہ جو تشریح کرتا ہے وہ غلط بھی ہو سکتی ہے۔ اسی طرح شیاطین بھی عالم دنیا میں اس کے ذہن میں چیزیں ڈال دیتے ہیں۔ اس لیے کشف چاہے کسی بھی بزرگ کا ہو، خواب کی طرح دین میں حجت نہیں ہے اور عمل اسی چیز پر کیا جائے گا جو دلیل سے ثابت ہوگی کہ وہ یقینی ہے۔

توجہ

جس طرح کشف حجت نہیں ہے اسی طرح توجہ اور تصرف وغیرہ بھی حجت نہیں ہیں۔ توجہ میں ایک شخص اپنی ذہنی قوت سے اپنی انرجی کو حرکت دیتا ہے اور دوسرے کے ذہن پر اثر انداز ہوتا ہے۔ یہ ٹیلی پیتھی کے بالکل الٹ ہوتا ہے۔ دوسرے کے ذہن پر جب وہ انرجی حاوی ہوتی ہے تو اس کے خیالات کی لہروں کو متاثر کرتی ہے (خیالات انرجی ہوتے ہیں) اور یوں وہ پہلے شخص کے اثر میں آ جاتا ہے۔ اب پہلا شخص چاہے تو اثر تڑپنے اور اچھلنے کا ڈالے، چاہے تو کوئی خیال ڈال دے اور چاہے تو کوئی فرضی یا جنات کے ذریعے حقیقی چیز دکھا دے۔ ایسے اللہ والے کم ہی ہوتے ہیں جو کوئی حقیقی چیز دکھائیں اور یہ کام بغیر کسی مشق کے کریں، وہ عموماً یہ کرتے بھی نہیں ہیں۔ باقی کسی اور جگہ دیکھنا عملاً ممکن ہے جس پر بعد میں بات کریں گے۔

آپ نے بعض لوگوں کو دیکھا ہوگا کہ ان کے پروگراموں میں لوگ اچھل کود رہے ہوتے ہیں۔ ان سے ہاتھ ملاتے ہیں یا اپنے اوپر کچھ ڈلواتے ہیں اور انہیں جھٹکے لگنے لگ جاتے ہیں۔ یہ پروگرام مسلمان اور غیر مسلم، دونوں طبقات میں ہوتے ہیں۔ اگر آپ نوٹ کریں تو ان میں دو میں سے ایک چیز عموماً موجود ہوگی۔ یا کوئی چیز کھانے یا اوپر ڈالنے کی موجود ہوگی اور یا ماحول بنا ہوگا۔ ماحول اس طرح بنا ہوگا کہ ارد گرد کوئی میوزک، کوئی نعت یا کچھ بھی ایسا چل رہا ہوگا جو ذہن کو ایک ردھم میں ڈال رہا ہوگا۔ ایسے میں جب وہ توجہ کرنے والا ہاتھ ملاتا ہے تو دوسرے بندے کا ذہن شدید متاثر ہوتا ہے اور اس تاثر میں وہ دیر تک جھٹکے کھاتا رہتا ہے۔

یہ ماحول یا کسی چیز کی مدد کمزور توجہ کی وجہ سے ہوتی ہے۔ ایک مجلس میں آنے والے لوگ کئی قسم کی ذہنی قوتیں رکھتے ہیں۔ کسی کے اعصاب کمزور ہوتے ہیں تو کسی کے مضبوط اور کسی کا تھرڈ آئی چکرا مزاحمت کر رہا ہوتا ہے تو کسی کا موافقت۔ ایسے میں تاثیر کرنے والے کے لیے ماحول یا کسی چیز کی مدد کے بغیر زیادہ لوگوں پر اثر انداز ہونا اسی صورت میں ممکن ہوتا ہے جب اس کی اپنی قوت انتہائی زیادہ ہو۔ وہ نہ ہو تو اسے ماحول کی مدد لینی پڑتی ہے تاکہ کچھ کام ہو چکا ہو اور باقی وہ کر سکے۔ جن کی قوت مضبوط ہو وہ بغیر ماحول کے بھی توجہ ڈال سکتے ہیں۔

چونکہ مجلس میں آنے والوں کی قوتیں بھی مختلف ہوتی ہیں اس لیے ہر بندہ اس ماحول اور اس میں اس توجہ سے متاثر نہیں ہوتا۔ بعض حقیقی صوفیاء یا متصوفین (جعلی صوفی) اپنی مجالس میں باقاعدہ یہ سلسلہ رکھتے ہیں کہ وہاں جانے والے لوگ ان سے کرنٹ کھاتے ہیں۔ان مجالس میں ایسے لوگ بھی جاتے ہیں جن پر کوئی اثر نہیں ہوتا۔ میرے جاننے والوں میں ایسے لوگ موجود ہیں۔ میں نے صوفیاء اور متصوفین کو الگ الگ لکھا ہے کیوں کہ اس میدان میں حقیقی لوگ بھی ہوتے ہیں اور جعلی بھی۔ یہ ہرگز ضروری نہیں ہے کہ توجہ ڈالنے والا شخص جعلی ہی ہو، وہ حقیقی اللہ والا بھی ہو سکتا ہے جو اس صلاحیت و قوت سے مدد لے رہا ہو۔ مدد ایسے لی جاتی ہے کہ اس قسم کے کسی کام سے جب ایک شخص متاثر ہو جاتا ہے تو وہ بآسانی دوسرے کی بات مان کر اپنی اصلاح کی جانب آ جاتا ہے۔

کیا یہ کام مدد کے لیے ہونا چاہیے؟ اس بارے میں آراء مختلف ہو سکتی ہیں۔ ظاہر ہے کہ اگر نیت غلط نہ ہو تو صرف اس عمل کو ناجائز نہیں کہا جا سکتا اور نیت کا فیصلہ ہر کسی کا اپنا ہے۔ لیکن میں یہ سمجھتا ہوں کہ یہ کام اس لیے بہت خطرناک ہے کہ کل کو ایسے مرید کو اگر کوئی اپنے پیر سے بڑا توجہ والا لیکن فراڈ شخص مل جاتا ہے تو اس کی پیر سے تمام ہم آہنگی ختم ہو کر اس سے شروع ہو جائے گی۔ عقلاً بھی وہ یہی سمجھے گا کہ یہ بڑا کامل شخص ہے اور یوں اس کی گمراہی کا ایک طویل سلسلہ شروع ہو جائے گا۔

دجال اور اندرونی قوتیں

یہاں ایک چیز پر اور کچھ بات کر لیتے ہیں۔ مدینہ میں ایک بچہ تھا جس کا نام ابن صیاد تھا۔ بچپن سے بڑا ہوا۔ اس کے بارے میں یہ مشہور تھا کہ وہ عجیب چیزیں اور کام کر لیتا ہے۔ وہ بچپن میں ہی کہانت کرتا تھا یعنی غیب کی پیش گوئی کرتا تھا جو کبھی درست ہوتی تھی اور کبھی غلط۔ نبی کریم ﷺ اس کی آزمائش کو تشریف لے گئے۔ آپ نے اسے کہا کہ میرے ذہن میں کیا ہے تو وہ ذرا سا غور کر کے بولا: دخ۔۔۔ بخاری کی روایت میں اس بات کا ذکر نہیں ہے کہ نبی کریم ﷺ نے اپنے ذہن مبارک میں کیا جملہ رکھا تھا لیکن دیگر روایات میں ہے آپ کے ذہن میں یہ آیت تھی: فَارْتَقِبْ يَوْمَ تَأْتِي السَّمَاءُ بِدُخَانٍ مُبِينٍ۔ اس میں سے اس کے دماغ میں فقط لفظ “دخ” آ سکا۔ مکمل روایت یوں ہے:

حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے روایت کیا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ صحابہ کی ایک جماعت جن میں عمر رضی اللہ عنہ بھی شامل تھے ‘ ابن صیاد (یہودی لڑکے) کے یہاں جا رہی تھی۔ آخر بنو مغالہ (ایک انصاری قبیلے) کے ٹیلوں کے پاس بچوں کے ساتھ کھیلتے ہوئے اسے ان لوگوں نے پا لیا ‘ ابن صیاد بالغ ہونے کے قریب تھا۔ اسے (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد کا) پتہ نہیں چلا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے (اس کے قریب پہنچ کر) اپنا ہاتھ اس کی پیٹھ پر مارا ‘ اور فرمایا کیا تو اس کی گواہی دیتا ہے کہ میں اللہ کا رسول ہوں۔ ابن صیاد نے آپ کی طرف دیکھا ‘ پھر کہنے لگا۔ ہاں! میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ امیوں کے نبی ہیں۔ اس کے بعد اس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کیا آپ گواہی دیتے ہیں کہ میں اللہ کا رسول ہوں؟ آپ نے اس کا جواب (صرف اتنا) دیا کہ میں اللہ اور اس کے (سچے) انبیاء پر ایمان لایا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا ‘ تو کیا دیکھتا ہے؟ اس نے کہا کہ میرے پاس ایک سچا آتا ہے اور ایک جھوٹا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر فرمایا کہ حقیقت حال تجھ پر مشتبہ ہو گئی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے فرمایا ”اچھا میں نے تیرے لیے اپنے دل میں ایک بات سوچی ہے (بتا وہ کیا ہے؟)“ ابن صیاد بولا کہ دخ۔۔۔، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”ذلیل ہو ‘ کمبخت! تو اپنی حیثیت سے آگے نہ بڑھ سکے گا۔“ عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا ‘ یا رسول اللہ! مجھے اجازت ہو تو میں اس کی گردن مار دوں لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”اگر یہ وہی (دجال) ہے تو تم اس پر قادر نہیں ہو سکتے اور اگر دجال نہیں ہے تو اس کی جان لینے میں کوئی خیر نہیں۔“

اس حوالے سے آراء مختلف ہیں کہ ابن صیاد دجال تھا یا نہیں۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نبی کریم ﷺ کے سامنے قسم کھاتے تھے کہ ابن صیاد ہی دجال ہے اور نبی کریم ﷺ نے منع نہیں فرمایا۔ علم حدیث سے وابستہ حضرات جانتے ہیں کہ اسے “تقریر نبی ﷺ” کہتے ہیں اور یہ بھی حدیث ہی کی ایک قسم ہے کیوں کہ غلط بات اللہ کے کسی پیغمبر کے سامنے ہوگی تو وہ اس سے ضرور روکیں گے۔ لیکن اس کے دجال ہونے یا نہ ہونے سے قطع نظر اس کی صفت اور نبی کریم ﷺ کے اس سے سوالات سے دو چیزیں سامنے آتی ہیں:

اول:  عالم مثال کو دیکھنا، جس کے بارے میں اس نے کہا کہ میرے پاس ایک سچا اور ایک جھوٹا آتا ہے اور ہم جان چکے ہیں کہ عالم مثال کی خبر یقینی نہیں ہوتی۔

دوم: خیالات سے واقفیت کی کوشش، جس پر ہم تفصیلی گفتگو ٹیلی پیتھی کے ضمن میں کر چکے ہیں۔

ان دونوں کا تعلق انرجی کی دنیا سے ہے اور اس سے ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ دجال جب آئے گا تو وہ ان تمام صلاحیتوں پر گرفت رکھتا ہوگا جن کا اوپر ذکر ہوا یا آگے ذکر ہوگا۔ وہ وقت سے پہلے کاموں کی خبر دیا کرے گا، لوگوں کے خیالات کو جان لیا کرے گا، انہیں ما فوق الفطرت چیزیں دکھایا کرے گا جیسے جنت، جہنم اور بیچ سے آدھا کر کے زندہ کرنا، بارش برسائے گا اور زمین کے خزانے نکالے گا جس پر ہم آگے تصرف کے تحت بات کریں گے۔ حتی کہ اپنے ابتدائی دنوں میں اس کا کنٹرول وقت پر بھی ہوگا چنانچہ اس کا پہلا دن ایک سال کے برابر ہوگا۔ ظاہر ہے کہ ایسے میں کوئی عام آدمی اس کا مقابلہ نہیں کر سکتا ہوگا۔

اس دجال کا سامنا جب ان لوگوں کو ہوگا جو پہلے ہی ایسی چیزوں سے متاثر ہو کر دین کی جانب آئے ہوں گے اور وہ دجال کا تصرف دیکھیں گے تو ظاہر ہے کہ وہ اس سے شدید متاثر ہوں گے۔ ان کے نزدیک تو دین اور نیکی کی علامت ہی یہ ہوگی۔ ایسے لوگ دجال کے آسان شکار ہوں گے۔ اس لیے میری رائے یہ ہے کہ عمومی مجالس میں ان قوتوں سے مدد نہیں لینی چاہیے۔ ہاں بعض معاملات اور بعض حالات خاص ہوتے ہیں، وہاں کوئی حرج نہیں ہے۔

تصرف

تصرف اسے کہتے ہیں کہ کوئی شخص اپنی ذہنی قوت و صلاحیت سے کسی چیز کو متحرک کر دے یا کسی چیز میں کوئی تبدیلی پیدا کر دے۔ اس کا طریقہ یہ ہوتا ہے کہ تصرف کرنے والا دوسری چیز کی انرجی (ہم سمجھ چکے ہیں کہ انرجی ہر چیز میں ہوتی ہے) سے اپنی انرجی کو اتنی شدت سے منسلک کرتا ہے کہ اس چیز کی انرجی اس متصرف (تصرف کرنے والے) کی انرجی کے تابع ہو جاتی ہے۔ وہ چیز ایسی ہو جاتی ہے جیسے تصرف کرنے والے کا اپنا عضو ہو۔ اب جب وہ اسے ایسے حرکت دیتا ہے جیسے وہ اپنے ہاتھ کو حرکت دیتا ہے تو اس میں موجود انرجی مادے کو حرکت دے دیتی ہے۔

اسے انگریزی میں “ٹیلی کائنیسس” کہتے ہیں۔ اس کا کوئی ماہر ہمیں عموماً اپنے ارد گرد یا نیٹ پر نہیں ملتا۔ کسی زمانے میں اس پر ٹی وی شوز ہوتے تھے لیکن بعد میں ان پر بھی اشکالات اٹھے کہ یہ تیار کردہ ہوتے ہیں۔ لیکن ہمیں کچھ کتابوں میں اس کے واقعات بہت واضح ملتے ہیں۔ بیسویں صدی کی ابتدا میں دنیا میں انرجی پریکٹسز بہت عام ہو گئی تھیں۔ چنانچہ ہمیں اس دور میں ہپناٹزم کے کئی ماہرین نظر آتے ہیں اور اسی دور میں ریکی بھی دریافت ہوئی ہے۔ اس دور کی کتب میں ایسے واقعات ملتے ہیں جن میں “ٹیلی کائنیسس” کی صلاحیت نظر آتی ہے۔

انیسویں صدی کی آخری نصف اور بیسویں صدی کا پہلا نصف انتشار کا زمانہ ہے۔ اس دور میں عالمی طاقتیں دنیا میں قبضے کر رہی تھیں، پھر آپس میں لڑنے لگیں، انیس سو بیس میں کرونا (غالباً اسپینش فلو) آیا، اس کے بعد دو بڑی جنگیں ہوئیں اور پھر ایٹم بم نے آ کر دنیا میں تباہی پھیلا دی لیکن ساتھ ہی جنگیں بھی روک دیں۔ اسی دور میں انڈسٹری کا پہیہ چلنا شروع ہوا، بجلی عام ہوئی اور تیل اور کوئلے سے پیدا شدہ کاربن مونو آکسائیڈ اور کاربن ڈائی آکسائیڈ نے زمین کی فضا کو خراب کرنا شروع کیا۔ جو چیزیں زمین کے نیچے ٹھوس یا سیال شکل میں تھیں انہیں اس مخلوق نے فضا کا حصہ بنا دیا جس کا کام زمین اور اس کی مخلوقات کو سنبھالنا تھا۔ اس کا نتیجہ اب ہم موسموں کی تیز تبدیلی کی شکل میں دیکھ رہے ہیں۔ یہ ایسی خرابیاں ہیں جنہیں اگر واپس کیا جائے تو شاید سینکڑوں یا ہزاروں سال لگ جائیں۔

بہرحال اگر آپ ٹیلی کائنیسس سمیت کسی بھی ذہنی صلاحیت کو حاصل کرنا چاہتے ہیں تو اس کی بنیاد توجہ کا ارتکاز ہے۔ کچھ عرصے کے لیے سب چیزیں، خصوصاً موبائل کو چھوڑ کر الگ تھلگ ہو جائیں اور روزانہ ایک ڈیڑھ گھنٹہ کسی چیز پر نظریں جما کر خیالات کو اس پر لائیں۔ پہلے زمانے میں اس کام کے شمع بینی یعنی موم بتی کی جلتی لو کو دیکھنے کا کہا جاتا تھا لیکن اس کا آنکھوں پر کافی منفی اثر ہوتا ہے۔ آپ یہ بھی کر سکتے ہیں کہ ایک تاریک کمرے میں کسی چیز سے سوئی کو باندھ کر لٹکائیں اور اپنے پیچھے ایک ٹارچ ایسے زاویے سے رکھیں کہ وہ سوئی پر روشنی کا ایک نقطہ بنائے۔ اس نقطے پر آپ توجہ کے ارتکاز کی مشق کر سکتے ہیں۔ ارتکاز صرف بنیاد ہے، یہ صلاحیت کو حاصل کرنے کا طریقہ نہیں ہے، البتہ اس سے کوئی صلاحیت نہ حاصل ہو تب بھی ذہن پرسکون تو ہو ہی جاتا ہے۔

صوت سرمدی

بعض صوفیاء کرام سے “صوت سرمدی” کا مراقبہ منقول ہے۔ اس کائنات میں ہر جانب توانائی ہے، بلکہ یہ مکمل توانائی ہی ہے جیسے پہلے گزر چکا ہے۔ اس توانائی کی ایک آواز ہے۔ یہ آواز ایسی ہوتی ہے جیسے کسی گھنٹی کی باز گشت، لوہے کے پیالے پر لوہے کے ڈنڈے کو مارنے کی آواز، پرانے زمانے کے ٹی وی کی اسکرین کی آواز جب سگنل درست نہ ہوں یا دور ریگستان میں چلتے اونٹوں کی گھنٹیوں کی آواز۔ اس کے ہر سننے والے کی توجیہ الگ ہے۔ یوگا کرنے والوں میں اور خصوصاً ہندو سادھؤوں میں ایک آواز معروف ہے جسے “اوم” کہا جاتا ہے۔ اس کا ایک سمبل بھی ہے۔ وہ اسے کائناتی آواز کہتے ہیں۔ اس کا مراقبہ بھی ایک طرح کا ارتکاز توجہ اور یکسوئی کا مراقبہ ہوتا ہے۔

دجال کی صلاحیتوں سےایسا معلوم ہوتا ہے کہ وہ ٹیلی کائنیسس کا بہت بڑا ماہر ہوگا۔ چنانچہ وہ زمین کو اشارہ کرے گا تو وہ سونا نکال دے گی، بادلوں کو اشارہ کرے گا تو وہ برسنے لگ جائیں گے وغیرہ۔ اس کا فتنہ بہت شدید ہوگا اور جو اس میں جھانکے گا وہ بھی متاثر ہوگا۔ اللہ پاک ہم سب کی حفاظت فرمائیں۔ آمین!دجال کی ان غیر انسانی قوتوں کا مقابلہ کوئی انسان نہیں کر سکے گا۔ ان کے مقابلے کے لیے نبی کریم ﷺ نے جو حل بتایا ہے وہ سورہ کہف کی ابتدائی دس آیات کو یاد کرنا اور ہر جمعے کو سورہ کہف پڑھنا ہے۔ اس کا اہتمام کرنا چاہیے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn