یہاں ایک عجیب و غریب چیز سامنے آتی ہے۔ انسان کی زمین پر علامات دو سے تین لاکھ سال قبل کی ہیں۔ آئس ایج (برفانی دور) کا اختتام گیارہ ہزار سال قبل ہوا ہے۔ یعنی انسان آئس ایج کے دوران زمین پر آ چکا تھا۔ آئس ایج کا زیادہ اثر قطب شمالی جانب تھا اور جنوبی حصوں میں برف نہیں تھی یا جلد پگھل گئی تھی۔ انسان ان جنوبی علاقوں میں رہتا تھا۔ چنانچہ حضرت آدمؑ کے زمین پر اترنے کی جگہ کے بارے میں جتنی روایات ہیں وہ سب گرم علاقوں (سری لنکا، جزیرہ نما عرب، عراق) کی ہیں جہاں اس وقت برف نہیں تھی۔ کیسے مزے کی بات ہے کہ انسان کی جیسے جیسے افزائش ہوتی گئی اس کے رہنے کے لیے زمین بھی کھلتی گئی اور برف پیچھے ہٹتی گئی۔
زمین پر جب مخلوقات ایک کے بعد ایک آ رہی تھیں تو ایک وقت ایسا آیا جب یہاں عقل رکھنے والی مخلوقات نے آنا شروع کیا۔ چناچہ زمین پر دو طرح کی مخلوقات آئیں: جنات اور انسان نما حن اور بن۔ بعض علماء تفسیر کا یہ خیال ہے کہ انسان سے پہلے زمین پر کوئی مخلوق نہیں تھی اور یہ خالی تھی، لیکن واقعاتی شہادت اس کے بالکل برعکس ہے۔ چنانچہ ڈائنوسارز سے لے کر نیندرتھل تک کی علامات انسان سے پہلے کی ملتی ہیں۔ دوسرا اور معروف قول یہ ہے کہ انسان سے پہلے زمین پر جنات تھے، انہوں نے زمین پر فساد پھیلایا تو فرشتوں کو بھیجا گیا تاکہ انہیں میدانوں سے نکال دیا جائے۔ اس پر ان شاء اللہ تفصیل سے گفتگو کرتے ہیں۔
ابن کثیرؒ فرماتے ہیں کہ بہت سے علماء تفسیر کا کہنا ہے کہ انسان سے پہلے زمین پر دو مخلوقات “حن” اور “بن” رہتی تھیں۔ ابن عاشور نے “طم”، “رم” اور “تیتان (ٹائٹنز)” کا بھی ذکر کیا ہے، گو خود ابن عاشور اس بات کے قائل ہیں کہ انسان ہی زمین میں سب سے پہلے آیا۔ سوال یہ ہے کہ کیا زمین میں واقعی ایسی مخلوقات رہتی تھیں؟ اس کا جواب ہے کہ زمین میں انسان نما مخلوقات واقعی رہتی رہی ہیں اور ان کی علامات ہمارے پاس موجود ہیں۔ البتہ ان کے نام سائنس نے مختلف رکھے ہیں۔ ظاہر ہے کہ سائنس دانوں کو انہوں نے آ کر تو نام بتائے نہیں ہیں، تو ممکن ہے کہ یہ اور حن، بن وغیرہ ایک ہی ہوں۔
اس پر گفتگو سے پہلے ایک بات ذہن میں رکھ لیجیے۔ انسان کی اولین علامات دو سے تین لاکھ سال پرانی ملتی ہیں۔ حقیقت میں یہ کتنا پرانا ہے؟ اللہ بہتر جانتا ہے۔ لیکن اسے زمین پر اللہ پاک نے خلیفہ بنا کر بھیجا تھا۔ اور اس کی پیدائش پر فرشتوں نے خیال ظاہر کیا تھا کہ یہ تو فساد پھیلائے گا۔ اب مختلف مخلوقات کا وقت دیکھیے۔
آسٹرالوپیٹیکس (Australopithecus) وہ ابتدائی جاندار تھے جو تقریباً چالیس لاکھ (4 million) سے لے کر بیس لاکھ (2 million) سال پہلے تک زمین پر موجود رہے۔ ان کے فوسلز زیادہ تر مشرقی افریقہ میں، خاص طور پر ایتھوپیا میں دریافت ہوئے ہیں۔ یہ وہ زمانہ تھا جب دنیا آئس ایج میں داخل ہونے سے پہلے کے مرحلے میں تھی۔ آسٹرالوپیٹیکس دو ٹانگوں پر چلتے تھے، جس کا مطلب ہے کہ انہوں نے انسانوں جیسے چلنے کا ابتدائی عمل شروع کر دیا تھا، لیکن ان کا جسم اور دماغ بندروں سے مشابہہ تھا۔ ان کے دماغ کا سائز تقریباً 400 سے 550 مکعب سینٹی میٹر ہوتا تھا، جو جدید انسان کے دماغ سے بہت چھوٹا ہے۔ ان کی خوراک میں پھل، پتے، جڑیں اور دیگر پودے شامل ہوتے تھے، گوشت کا استعمال شاذ و نادر ہی تھا۔ بعض فوسلز سے پتہ چلتا ہے کہ وہ درختوں پر چڑھنے کی صلاحیت بھی رکھتے تھے، جو ان کی بقا کے لیے اہم تھی۔
ہومو ہیبیلس (Homo habilis) کا مطلب “ماہِر انسان” یا “ہنر مند انسان” ہے، اور یہ تقریباً ڈھائی ملین سے لے کر ڈیڑھ ملین سال پہلے تک مشرقی افریقہ میں آباد تھے۔ ہومو ہیبیلس وہ پہلا گروہ تھا جس کے بارے میں ثبوت ملتے ہیں کہ وہ پتھروں سے اوزار بناتے تھے، مثلاً چھوٹے پتھروں کو تیز دھار بنا کر استعمال کرتے تھے۔ ان کے دماغ کا سائز آسٹرالوپیٹیکس سے بڑا، یعنی 500 سے 900 مکعب سینٹی میٹر تک تھا۔ ان کے فوسلز کے ساتھ ملنے والے اوزار اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ وہ نہ صرف شکاری تھے بلکہ مردہ جانوروں کا گوشت کاٹنے اور کھال اتارنے کی بھی صلاحیت رکھتے تھے۔
ہومو ایریکٹس (Homo erectus) وہ نوع ہے جو تقریباً 1.9 ملین سال پہلے زمین پر نمودار ہوئی اور ایک طویل عرصے یعنی ایک لاکھ دس ہزار سال پہلے تک زندہ رہی۔ یہ پہلا انسان نما گروہ تھا جو افریقہ سے نکل کر یورپ اور ایشیا تک پھیل گیا، اس لیے ان کے فوسلز کئی ممالک میں دریافت ہوئے ہیں۔ یہ آگ کا استعمال کرنے والے اولین جاندار تھے، جنہوں نے آگ سے نہ صرف روشنی اور حرارت حاصل کی بلکہ شکار کے گوشت کو پکانا بھی شروع کیا۔ ہومو ایریکٹس کی جسمانی ساخت جدید انسانوں سے بہت مشابہہ تھی، اور وہ نہایت طاقتور اور سخت جان تھے۔ انہوں نے پتھر سے دو دھاری اوزار (hand axes) بنانے کی مہارت حاصل کی، جو اس وقت کے لحاظ سے پیچیدہ سمجھے جاتے ہیں۔ ان کی موجودگی کے دوران جدید انسان (Homo sapiens) بھی زمین پر آ چکے تھے۔
نینڈرتھل (Neanderthal) ایک ایسی انسان نما نسل تھی جو تقریباً چار لاکھ سال پہلے یورپ اور مغربی ایشیا میں نمودار ہوئی اور چالیس ہزار سال پہلے ختم ہو گئی۔ ان کا جسم مضبوط، قد چھوٹا اور چوڑا ہوتا تھا، جو سرد علاقوں میں زندہ رہنے کے لیے موزوں تھا۔ ان کے دماغ کا حجم جدید انسانوں کے برابر یا کبھی اس سے بھی بڑا ہوتا تھا، مگر اس کی ساخت کچھ مختلف تھی۔ یہ لوگ نہ صرف پیچیدہ اوزار بناتے اور شکار کرتے تھے بلکہ مردوں کو دفنانے، قبریں بنانے اور بعض آثار کے مطابق تصویریں بھی بنانے لگے تھے۔ یہ آگ کے مکمل استعمال میں ماہر تھے اور جانوروں کی کھال پہن کر سردیوں سے بچتے تھے۔ نئی تحقیق سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ نینڈرتھلز اور جدید انسانوں کے درمیان مختصر وقت کے لیے تعلقات بھی قائم ہوئے، اور آج بھی بعض انسانوں کے ڈی این اے میں ان کے جینز موجود ہیں۔
ہومو نیلیڈی (Homo naledi) ایک نسبتاً حالیہ دریافت شدہ انسان نما نوع ہے، جس کا انکشاف 2015 میں جنوبی افریقہ کی ایک غار (Rising Star cave) میں ہوا۔ یہ تقریباً تین لاکھ سے دو لاکھ سال قبل تک زندہ رہے۔ ان کا دماغ بہت چھوٹا تھا، صرف 460 سے 610 مکعب سینٹی میٹر کے درمیان، لیکن ان کا جسمانی ڈھانچہ انسانوں جیسا تھا۔ حیرت انگیز طور پر، شواہد سے پتا چلتا ہے کہ یہ اپنی مردہ لاشوں کو دفن کرتے تھے، حالانکہ ان کا دماغی سائز اس قابل نہیں لگتا کہ وہ ایسے سماجی اور مذہبی عمل کو سمجھ سکیں۔ ان کی انگلیوں اور کندھوں سے لگتا ہے کہ وہ درختوں پر بھی چڑھ سکتے تھے، مگر دو پاؤں پر چلنے کی صلاحیت بھی رکھتے تھے۔
ڈینیسووا (Denisovan) وہ انسان نما نسل ہے جس کی موجودگی تقریباً دو لاکھ سال پہلے سے چالیس ہزار سال قبل تک سائبیرین علاقوں، تبت اور ممکنہ طور پر جنوب مشرقی ایشیا تک پھیلی ہوئی تھی۔ ان کے فوسلز سب سے پہلے سائبریا کے ایک غار (Denisova Cave) میں دریافت ہوئے، اسی لیے ان کا نام “ڈینیسووا” رکھا گیا۔ ان کے جسم اور جینز سرد علاقوں میں جینے کے لیے مخصوص تھے، جیسے تبت کے موجودہ باشندوں میں موجود ایک خاص جین (EPAS1) جس کی مدد سے وہ کم آکسیجن والے علاقوں میں بھی آرام سے رہتے ہیں۔ جدید انسانوں، نینڈرتھلز اور ڈینیسووا کے درمیان ڈی این اے کی سطح پر اختلاط (interbreeding) کے شواہد موجود ہیں، جس کا مطلب ہے کہ یہ سب ایک ہی وقت میں کچھ علاقوں میں موجود تھے۔ ڈینیسووا کے متعلق کئی پہلو ابھی بھی تحقیق طلب ہیں، اور چونکہ ان کے فوسلز بہت محدود تعداد میں دستیاب ہیں، اس لیے سائنسدان ان کے بارے میں محتاط رویہ رکھتے ہیں۔ سائبیرین غاروں کی یہ سرد، گہری اور محفوظ جگہیں ممکنہ طور پر یاجوج ماجوج جیسے اسرار کا مرکز بھی ہو سکتی ہیں۔
انسان کی پرانی علامات افریقہ سے ملتی ہیں اور یہ دو سے تین لاکھ سال پرانی ہیں۔ اب غور کیجیے کہ اللہ پاک نے انسان کو زمین پر کیا بنایا تھا؟ خلیفہ۔ خلیفہ نائب کو کہتے ہیں اور اس نائب کا کام زمین سے فساد کو ختم کر کے زمین پر تمام مخلوقات کے لیے امن لانا تھا۔ سائنس دان امکان ظاہر کرتے ہیں کہ ان میں جو مخلوقات انسان کے ساتھ زمین پر موجود تھیں ان کے خاتمے کی ایک وجہ سے انسانوں سے ان کا ٹکراؤ بھی تھا، لیکن یہ صرف امکان ہے۔ اس پر دلیل ہونا ممکن نہیں ہے۔ ان سب میں ایک کمی تھی۔ یہ جسمانی طور پر تو مضبوط تھے لیکن انسان کی طرح عقل استعمال نہیں کر سکتے تھے۔ انسان نے ان کا حل نکال کر انہیں ختم کر دیا۔ شیطان کا ظہور تو انسان کے ساتھ ہوا ہے، یہ جنات کی طرح شیطان کے بغیر ہی فساد پھیلایا کرتے تھے۔
ایک سوال پیدا ہوتا ہے۔ ان مخلوقات پر یہ تحقیق تو گزشتہ صدی کی ہے تو مفسرین کرام کے پاس “حن” اور “بن” کا علم کہاں سے آیا تھا؟ وہ آیا تھا اسرائیلی روایات سے جو عموماً بنی اسرائیل سے ملی تھیں لیکن ان کی مقدس کتابوں کے علاوہ بھی تھیں، اور ہمارے سنہری دور میں اگر کوئی علم قرآن و حدیث کے خلاف نہ ہو تو وہ ہم ضرور لیا کرتے تھے، گو اس کی حیثیت امکانی ہوا کرتی تھی۔ آج کی طرح ہر چیز کو پہلی فرصت میں رد کرنے کا مزاج اس وقت ہمارا نہیں ہوا کرتا تھا۔ یہاں یہ بھی ایک دلچسپ چیز ہے کہ یہودی روایات میں “نیفلیم”، “واچرز” اور “شیدیم” کا تذکرہ ملتا ہے۔ ان کی جو خصوصیات ملتی ہیں وہ ان انسان نما قدیم مخلوقات پر صادق تو نہیں آتیں لیکن ظاہر ہے کہ ہمارے پاس ان کے بارے میں موجود علم بھی محدود ہی ہے۔ فارس اور یہود، دونوں کی روایات یہ بتاتی ہیں کہ انسان کی دوسری مخلوقات سے جنگیں ہوئی ہیں، لیکن نہ تو یہ روایات مضبوط ہیں اور نہ ہی کوئی اور قرائن ہیں۔ لہذا بس امکانات ہی ہیں۔ البتہ اگر جنگ کا امکان نہ مانیں تو پھر نیندرتھل اور ڈینیسووا جیسی نسلوں کا بالکل معدوم ہو جانا کسی اور ذریعے سے سمجھ نہیں آتا۔