چوتھا حصہ: جنات کی تخلیق

جنات کی تخلیق

حن اور بن کے آس پاس ہی زمین پر جنات کی تخلیق ہوئی۔ یہ فقط اندازہ ہے ورنہ اس پر کوئی دلیل موجود نہیں ہے کہ جنات کی تخلیق کب ہوئی۔ البتہ قرآن کریم ہمیں ان کی تخلیق کے بارے میں دو باتیں بتاتا ہے: انہیں انتہائی تیز آگ سے پیدا کیا گیا اور انہیں آگ کے خالص شعلے سے پیدا کیا گیا۔

آگ کیا ہے؟ آگ اپنی حقیقت میں نہ تو کوئی مادہ ہے اور نہ ہی توانائی، جب کہ ہمارے موجودہ علم کے مطابق کائنات میں دو ہی چیزیں ہیں: مادہ اور توانائی، یا دوسرے لفظوں میں کہیں تو توانائی کی خالص شکل (توانائی) اور نسبتاً ٹھوس شکل (مادہ یعنی گیس، مائع اور ٹھوس)۔

آگ درحقیقت ایک کیمیکل ری ایکشن ہے۔ جب کسی چیز کو آگ لگتی ہے تو اس کا مطلب ہوتا ہے کہ ایک جلنے کے قابل چیز (فیول) ایک آکسیڈنٹ (عموماً ہوا میں موجود آکسیجن) سے تعامل کر رہی ہے۔ اس تعامل کی ابتدا گرمی سے ہوتی ہے جو رگڑ یا کسی اور چیز سے پیدا ہوتی ہے۔ تعامل کے نتیجے میں فیول کے مالیکیول ٹوٹتے ہیں اور اس سے انرجی اور گیسز نکلتی ہیں۔ مثلاً ہم لکڑی کو آگ لگائیں تو اس کے مالیکیول (ایٹم سے بنے ذرات) ٹوٹتے ہیں۔ ان کے ٹوٹنے پر دو چیزیں باہر نکلتی ہیں: ان میں موجود پوٹینشل انرجی (محفوظ شدہ توانائی) اور ایٹم (مادہ)۔ یہ توانائی دو شکلوں میں باہر آتی ہے: حرارت اور روشنی۔ ان کی وجہ سے ہمیں آگ کا شعلہ نظر آتا ہے۔ رہے ایٹم تو وہ آکسیجن کے ایٹموں سے تعامل کر کے گیس کے نئے مالیکیول بناتے ہیں جو کاربن ڈائی آکسائیڈ یا کاربن مونو آکسائیڈ کی شکل میں گیس بن جاتے ہیں۔ جو چیز ایسی ہوتی ہے کہ جل نہیں پاتی وہ راکھ کی شکل اختیار کر لیتی ہے۔

آگ کا پراسس

یہ خاکہ آگ کے پراسس کو ظاہر کرتا ہے۔
By https://humanfocus.co.uk/blog/fire-triangle-vs-fire-tetrahedron-whats-the-difference/

اگر آگ ایسی ہو کہ اس کا ایندھن مکمل جل جائے تو اس سے نہ تو راکھ بنے گی اور نہ ہی اس کا دھواں نظر آئے گا۔ قرطبیؒ جوہریؒ سے نقل کرتے ہیں کہ جنات کو جس آگ سے بنایا گیا اس میں دھواں نہیں تھا۔ یعنی وہ ایک کامل آگ تھی اور اس آگ میں راکھ بھی پھر نہیں ہوگی۔ اس لیے اسے ”خالص آگ“ کہا گیا ہے۔ اب رہ گئیں دو چیزیں: حرارت اور روشنی۔ ان دونوں کو ایک لفظ میں کہا جائے تو توانائی۔ اس سے جنات کو پیدا کیا گیا۔ یاد رہے کہ یہ فقط جزئیات کو ملا کر ایک نتیجہ اخذ کیا جا رہا ہے جو انسان کی صلاحیت ہے۔ اس پر صریح کوئی نص نہیں ہے۔

زمین کی تشکیل کی بات کرتے وقت ہم ذکر کر چکے ہیں کہ گیسز سے مائع بنا اور مائع سے ٹھوس۔ سورج میں سب سے زیادہ ہائیڈروجن گیس پائی جاتی ہے۔ عین ممکن ہے کہ یہ زمین کی تشکیل کے وقت یہاں بھی ہائیڈروجن ہی زیادہ ہو۔ ہائیڈروجن آکسیجن سے ملی ہو اور سورج کی شعاعوں نے بیچ میں آگ لگا دی ہو۔ جب ہائیڈروجن اور آکسیجن مل کر جلتی ہیں تو ایک خالص آگ پیدا ہوتی ہے جو پانی بناتی ہے اور یہ آگ انتہائی گرم بھی ہوتی ہے۔ چنانچہ زمین پر موجود پانی کے بارے میں ایک نظریہ یہی ہے کہ یہ گیسز کے تعامل سے پیدا ہوا ہے۔ لیکن کیا جنات کو اسی آگ سے اسی وقت پیدا کیا گیا؟ ہم قطعیت سے بالکل نہیں کہہ سکتے۔ یہ اللہ پاک ہی جانتے ہیں۔

انسان مٹی سے پیدا ہوا ہے لیکن اس کے جسم سے مٹی نہیں جھڑتی کیوں کہ وہ مٹی کی پراڈکٹ ہے، خود مٹی نہیں ہے۔ یوں ہی جنات آگ کی پراڈکٹ ہیں، خود آگ نہیں ہیں۔ اس پر دلیل وہ حدیث ہے جس میں ایک جن نبی کریم ﷺ کے پاس رات میں آگ لے کر آیا۔ اس کی بعض روایات میں یہ ہے کہ ”میں نے اس کا گلا پکڑ لیا یہاں تک کہ اس کے سانس کی نمی اپنے ہاتھ پر محسوس کی (مفہوم)“۔ قاضی بدر الدین شبلیؒ نے اس سے یہی استدلال کیا ہے کہ جنات خود آگ نہیں ہیں۔ اگر وہ آگ ہوتے تو وہ جن اپنے ساتھ آگ لے کر نہ آتا اور نہ ہی اس کے سانس کی نمی ہوتی۔

جنات اور توانائی کی خصوصیات

جنات اگر توانائی ہیں تو ان میں توانائی کی خصوصیات بھی ہوں گی۔ چنانچہ جنات کا تجزیہ اگر اس تناظر میں کیا جائے تو ہمیں کچھ دلچسپ چیزیں سمجھ آتی ہیں:

اول: توانائی کو دیکھا نہیں جا سکتا اور جنات کو بھی نہیں دیکھا جا سکتا۔ لیکن توانائی کو مادے کی شکل دی جا سکتی ہے۔ چنانچہ جنات بھی مختلف شکلوں میں آ سکتے ہیں۔ اس کی دلیل احادیث مبارکہ سے ملتی ہے۔ یاد رہے کہ جنات کی بھی کئی قسمیں ہیں اور یہ فقط ایک عمومی بات ہے۔ توانائی کو مادے کی شکل دینا بظاہر بڑے پیمانے پر ممکن نہیں ہے۔ لیکن کئی علماء کا یہ کہنا ہے کہ جنات کے پاس ایسے اعمال اور اوراد موجود ہوتے ہیں جو انہیں شکل دے دیتے ہیں۔

بظاہر ایسا لگتا ہے کہ ان اعمال سے ان کی توانائی ایک جگہ مجتمع ہو جاتی ہے۔ ہم لارج ہیڈرون کولائیڈر کے تجربات سے یہ جانتے ہیں کہ توانائی جب ایک جگہ بڑے پیمانے پر جمع ہوتی ہے تو مادے کے ذرات وجود میں آتے ہیں۔ ان کے مقابلے میں ”اینٹی میٹر“ ہوتا ہے جو انہیں ختم کر کے دوبارہ انرجی بنا دیتا ہے۔ جنات کے اعمال میں وہ ”اینٹی میٹر“ وقتی طور پر رک جاتا ہے اور وہ مادے کی شکل دھار لیتے ہیں۔ عمل کا اثر ختم ہونے پر اینٹی میٹر انہیں دوبارہ توانائی کی شکل میں بدل دیتا ہے۔

لارج ہیڈرون کولائیڈر

The Large Hadron Collider (LHC) is the world’s largest and highest-energy particle accelerator. It was built by the European Organization for Nuclear Research (CERN) between 1998 and 2008, in collaboration with over 10,000 scientists, and hundreds of universities and laboratories across more than 100 countries. It lies in a tunnel 27 kilometres (17 mi) in circumference and as deep as 175 metres (574 ft) beneath the France–Switzerland border near Geneva.
For more: https://en.wikipedia.org/wiki/Large_Hadron_Collider

 

دوم: اگر جنات توانائی ہیں تو انہیں آلات پر محسوس کیا جانا چاہیے۔ اس وقت ہمارے پاس کئی قسم کے توانائی محسوس کرنے والے آلات موجود ہیں۔ اس حوالے سے پہلی بات یہ سمجھ لینی چاہیے کہ جنات اگر توانائی ہیں تو بھی اس سے بنی ایک جیتی جاگتی مخلوق ہیں۔ جس طرح ہم مٹی سے بن کر اب مٹی نہیں ہیں اسی طرح جنات عین ممکن ہے کہ اب توانائی کی اس شکل میں نہ ہوں جیسی عام توانائی ہوتی ہے۔ لیکن اس کے باوجود دنیا بھر میں “گھوسٹ ہنٹرز” ایسے آلات استعمال کرتے ہیں جو الیکٹرومیگنیٹک فیلڈ اور انفرا ریڈز کو ڈیٹیکٹ کرتے ہیں اور کسی حد تک جنات کی نشان دہی کرتے ہیں۔ سائنس ان کے نتائج پر یقین نہیں کرتی لیکن اس کی وجہ یہ ہے کہ سائنس جنات کو مانتی ہی نہیں ہے تو ان کی ڈیٹیکشن پر یقین کیسے کرے؟

سوم: اگر جنات آگ سے بنی توانائی ہیں تو انہیں آگ سے جل جانا چاہیے کیوں کہ آگ توانائی کی شکل بدل دیتی ہے۔ ظاہر ہے کہ ہمیں جنات نظر نہیں آتے تو ہم یقین سے کچھ نہیں کہہ سکتے، لیکن اس کے شواہد موجود ہیں کہ بعض لوگوں پر جنات نے قبضہ کیا ہوا تھا اور جب انہیں آگ کے قریب کیا گیا تو وہ جنات فرار ہو گئے۔ لیکن یہ ذہن میں رہنا چاہیے کہ جنات کا کسی شخص پر قبضہ ہمیشہ اس طرح نہیں ہوتا کہ وہ اس کے جسم میں سرایت کر جائے۔ بلکہ بعض اوقات جن اس کے دماغ میں اپنی سوچ انڈیل رہا ہوتا ہے یا اس کے روحانی جسم (اس پر تفصیلی گفتگو آئے گی) کو اپنی انرجی سے متاثر کر رہا ہوتا ہے۔ ایسے میں کئی عامل بھی اسے نکالنے میں کامیاب نہیں ہوتے کیوں کہ وہ وہاں موجود ہی نہیں ہوتا جہاں محسوس ہو رہا ہوتا ہے۔

عموماً جب جنات کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے تو اس سے مراد کوئی ایک مخلوق لی جاتی ہے۔ حالانکہ جنات کی بھی کئی قسمیں ہیں۔ تین کا ذکر تو احادیث مبارکہ میں آیا ہے: سانپ، بچھو وغیرہ کی شکل میں، اڑنے والے اور وہ جو رہن سہن رکھتے ہیں۔ ان میں پھر کتنی قسمیں ہیں اور کون کون حساب و کتاب کا مکلف ہے جب کہ کون کون صرف جانوروں کی طرح زندگی رکھتا ہے؟ یہ اللہ پاک ہی بہتر جانتے ہیں۔

ابلیس جنات میں سے ایک ہے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ وہ جنات کا پہلا فرد تھا جیسے حضرت آدمؑ انسان کے جد امجد تھے۔ یہ بات قطعی نہیں ہے۔ البتہ وہ جنات میں سرداری رکھتا تھا اور اس قدر اللہ پاک کا مقرب تھا کہ فرشتوں میں رہتا تھا۔ ابلیس کی ذریت کا بھی قرآن کریم میں ذکر ہے اور اس کے قبیلے کا بھی، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کی نسل بھی آگے چلتی ہے۔ لیکن انرجی کی یہ قسم تاریک ترین انرجی ہے جسے حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ نے ”گلے سڑے بخارات“ سے ذکر فرمایا ہے(حجۃ اللہ البالغۃ)۔ ان میں ایمان کی صلاحیت بہت کم ہوتی ہے چنانچہ یہ شیطانی سے باز نہیں آتے۔ البتہ نبی کریم ﷺ کی ایک حدیث مبارکہ، جس میں آپﷺ نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے جواب میں فرمایا کہ میرے ساتھ بھی ایک شیطان ہے لیکن وہ مسلمان ہو گیا ہے، سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ یہ صلاحیت کم تو ہوتی ہے لیکن موجود ہوتی ہے۔

جب اللہ پاک نے زمین بنائی تو اس پر جنات کو رہنے کی جگہ عطا فرمائی۔ زمین پر اور بھی مخلوقات تھیں۔ جنات نے کچھ عرصے کے بعد یہاں فساد پھیلانا شروع کیا اور اس قدر فساد پھیلایا کہ ان کے سد باب کے لیے فرشتوں کو بھیجا گیا۔ جنات کے بالکل برخلاف فرشتے خالصتاً نورانی مخلوق ہیں۔ انہوں نے انہیں مار مار کر زمین سے جنگلات اور پہاڑوں میں بھگا دیا۔ زمین انسان کی آمد کے لیے خالی ہوگئی۔ ہم گفتگو کر چکے ہیں کہ انسان کی آمد کے وقت زمین پر نیندرتھل وغیرہ موجود تھے جس سے واضح ہوتا ہے کہ وہ جنات نہیں تھے۔ اس کا ثبوت نہیں ملتا کہ انسان کی آمد کے بعد بھی جنات ان ہی جنگلات میں رہے ہوں۔ بلکہ ظاہر یہ ہوتا ہے کہ جنات دوبارہ آبادیوں کی جانب آ گئے تھے۔ چنانچہ کئی روایات میں جنات کا اس حوالے سے ذکر موجود ہے کہ وہ گھروں میں یا بیت الخلا (واش روم) میں رہتے ہیں۔

یہاں ایک چیز سمجھنے کی ہے۔ جنات انرجی ہیں اور ان کا جسم ہم سے بالکل الگ ہے۔ وہ ہماری ہی دنیا میں رہتے ہیں۔ یہی دیواریں، درخت اور پہاڑ وغیرہ ان کے لیے بھی ہیں جو ہمارے لیے ہیں۔ لیکن اگر ہم ان کی دنیا میں جا کر دیکھیں تو ہر چیز پر انرجی منڈھی نظر آئے گی۔ چونکہ انرجی کو پھیلنے یا سکڑنے کا کوئی مسئلہ نہیں ہوتا لہذا وہ چھوٹی سی جگہ میں بڑی مقدار میں رہ سکتے ہیں۔ اسی طرح وہ دیواروں اور کونوں کھدروں میں گھر بنا سکتے ہیں۔ ہمارے لیے یہ سب بہت تاریک اور پر خوف ہے لیکن ان کے لیے یہ عام ہے کیوں کہ وہ نیگیٹو انرجی ہیں۔ اس کے برخلاف ہمارا دن ان کے لیے تنگی کا سبب ہے۔ چنانچہ وہ دن کے بجائے رات میں زیادہ تر کام کاج کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جادو کرنے والے بھی اماوَس (بغیر چاند) کی تاریک راتوں کو شیاطین سے مدد طلب کرنے اور انہیں مسخر کرنے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔

کیا جنات ہمیں دیکھ سکتے ہیں؟ اس پر کوئی قطعی بات نہیں ہے۔ قرآن کریم میں شیطان اور اس کے قبیلے کے بارے میں تو یہ ہے کہ وہ تمہیں وہاں سے دیکھتے ہیں جہاں سے تم انہیں نہیں دیکھتے، لیکن عام جنات کا واضح نہیں ہے۔ لیکن کئی معاملات میں جنات انسانوں کو دیکھتے اور باتیں کرتے نظر آتے ہیں۔ بظاہر ایسا لگتا ہے کہ ان میں بعض قسمیں ہمیں دیکھ سکتی ہیں اور بعض نہیں، یا بعض جنات کسی عمل سے ہمیں دیکھ سکتے ہیں۔ انسان عام حالات میں جنات کو نہیں دیکھ سکتے لیکن اپنی تھرڈ آئی کے ذریعے دیکھ سکتے ہیں۔ اسی طرح عام حالات میں جنات کی انسان سے باتیں اس طرح نہیں ہوتیں جس طرح ہم ایک دوسرے سے کرتے ہیں بلکہ وہ روحانی قوت کے ذریعے خیالات میں محسوس کی جاتی ہیں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn