بائیکاٹ

اگر آپ یہ سمجھ رہے ہیں کہ میں بائیکاٹ کے خلاف ہوں تو ایسا ہرگز نہیں ہے۔ میں بائیکاٹ سے ایک قدم آگے بڑھ کر مستقل خود انحصاری کا کہتا ہوں کہ صرف اپنی ملکی چیز استعمال کی جائے، بائیکاٹ خود ہی ہو جائے گا۔
لیکن یہاں دو چیزیں سمجھنے کی ہیں۔ اعمال کا دارومدار نیت پر ہے۔ ایک ہے جلب منفعت، یعنی فائدہ اٹھانا۔ آپ پاکستانی چیز اس لیے استعمال کرتے ہیں اور اس کی ترغیب دیتے ہیں کہ ملک کو فائدہ ہے تو یہ بالکل درست ہے۔
دوسرا ہے اضرار، یعنی دوسرے کو نقصان پہنچانا۔ یہاں معاملہ تھوڑا پیچیدہ ہے۔ یہاں چار قسم کے لوگ ہیں:
1. جو ڈائریکٹ دشمن ہیں اور ابھی دشمنی کر رہے ہیں۔ انہیں نقصان پہنچانا تو جائز ہے۔
2. جو نیوٹرل ہیں لیکن ہیں دشمن کی کیٹیگری کے ہی اور ان سے کوئی معاہدہ نہیں ہے۔ انہیں نقصان پہنچانا بھی جائز ہوگا اگر اس سے فساد نہ کھڑا ہو۔
3. جو ابھی دشمنی میں نہیں ہیں اور ان سے صلح یا معاہدہ ہے۔ انہیں نقصان پہنچانا جائز نہیں ہے۔
4. مسلمان۔ انہیں نقصان پہنچانا بھی جائز نہیں ہے۔
اب جب ہم کہتے ہیں کہ غاصبین کی پراڈکٹس کا بائیکاٹ کرو، تو ہم اس میں ان چاروں کا خیال نہیں کرتے۔ ہم دور دراز کے واسطے نکال کر بھی بائیکاٹ کا کہنے لگتے ہیں۔ مثال کے طور پر ایک کمپنی ہے جو اصلاً امریکہ کی ہے۔ اب امریکہ سے ہمارے تجارتی معاہدے ہیں لیکن وہ دشمن ہے۔ البتہ اس وقت وہ ہمارے ساتھ براہ راست جنگ میں نہیں ہے۔ جنگ کرنے والے کا معاون ہے کسی حد تک۔ کمپنی وہاں رجسٹر ہے اور کمپنی کا امریکی پالیسیوں سے بھی کوئی لینا دینا نہیں ہے۔ ہمارا اس سے کاروباری معاہدہ ہے۔
یہ کمپنی پاکستان میں ایک فرنچائز دیتی ہے یہاں کی کمپنی کو اور اس سے دس فیصد کمیشن طے کر لیتی ہے۔ اب پاکستانی کمپنی کے پاس سیل کی نوے فیصد رقم آتی ہے۔ اس سے کس کس کو پیسہ جاتا ہے؟
1. کمپنی کے ملازمین
2. کمپنی کی جگہ کا کرایہ
3. کمپنی جن سے مال خریدتی ہے وہ وینڈرز
4. ٹرانسپورٹرز
5. ڈلیوری سروسز
6. بجلی استعمال کرنے پر بجلی کمپنی
7. گیس کمپنی
8. ایڈورٹائزمنٹ کمپنیز
9. دیگر سروسز فراہم کرنے والے
10. پاکستانی مالکان
اب جب آپ کہتے ہیں کہ اس کی پئیرنٹ کمپنی نے غاصبین کے ملک میں ایک پلانٹ لگایا ہے لہذا ہم بائیکاٹ کر رہے ہیں تو در اصل آپ یہ کہہ رہے ہوتے ہیں کہ پئیرنٹ کمپنی نے چونکہ اسرائیل کا بائیکاٹ نہیں کیا اس لیے ہم اس کا بائیکاٹ کر رہے ہیں۔ پھر یہ کہہ کر آپ دس فیصد اسے نقصان پہنچاتے ہیں جو نمبر 3 میں آتے ہیں اور نوے فیصد نمبر 4 یعنی مسلمانوں کو۔ خود بتائیے کیا یہ درست ہوگا؟
دیکھیے میں مانتا ہوں کہ ہمارے یہاں اصل دین ہمارے جذبات ہیں اور ان ہی سے ہم صحیح اور غلط کا فیصلہ کرتے ہیں۔ بس ہمیں اچھا لگنا چاہیے۔ لیکن ذرا سا غور تو کر ہی لینا چاہیے کہ کیا اس بنیاد پر کہ پئیرنٹ کمپنی نیوٹرل ہے، وہ بیک وقت اسرائیل، سعودی عرب اور قطر سے معاملات ایک طرح کرتی ہے لیکن پھر بھی نیوٹرل کیوں ہے؟ لہذا ہم اس کا بائیکاٹ کریں گے… کیا اس بنیاد پر نوے فیصد اپنے لوگوں کو اور دس فیصد اس معاہدے والی نیوٹرل کمپنی کو نقصان پہنچانا درست ہوگا؟
ہمارے یہاں چلنے والی اکثر لسٹس اسی طرح بنی ہیں۔ اس لیے گزشتہ ستر سال کے بائیکاٹس میں جن ممالک کا بائیکاٹ ہم نے کیا تھا ان کا کچھ نہیں بگڑا۔ قرآن کریم نے تو پہلے ہی کہہ دیا تھا:
“اور تمہیں کسی قوم کی دشمنی اس پر نہ ابھارے کہ تم عدل نہ کرو۔ عدل کیا کرو، یہ تقوی کے زیادہ قریب ہے (المائدۃ: ٨)”

Facebook
Twitter
LinkedIn