اگر آپ کا تعلق کتب فقہ سے ہے تو امام رافعیؒ کے نام سے تو واقف ہوں گے۔ یہ بلند پایہ شافعی عالم ہیں۔ فقہ میں ان کی کتاب “الشرح الکبیر” کے نام سے معروف ہے اوراسے پڑھنے والے اس کے گرویدہ ہوئے بنا نہیں رہتے۔ان کی وفات 623 ہجری میں ہوئی۔ “الشرح الکبیر” میں رافعیؒ کا طرز صاحب ہدایہ سے ملتا جلتا ہے۔ یہ مسئلے کی دلیل عموماً منصوص و معقول، دونوں قسم کی دیتے ہیں۔ اس ضمن میں یہ روایات بھی ذکر کرتے ہیں۔
رافعیؒ کی “الشرح الکبیر” کی احادیث کی تخریج کرنے والوں میں حافظ ابن حجر عسقلانیؒ بھی ہیں۔ حافظؒ کی وسعت علمی محتاج تعارف نہیں۔ انہوں نے اپنی کتاب “التلخیص الحبیر” میں ان احادیث کی تخریج کی ہے اور اس قدر عمدہ تحقیق کی ہے کہ یہ کتاب بذات خود ایک مصدر سمجھی جاتی ہے۔ لیکن فقہ کا طالب علم اس وقت حیرانی کا شکار ہو جاتا ہے جب وہ بے شمار احادیث کے بارے میں حافظؒ کا یہ قول دیکھتا ہے: “مجھے یہ حدیث نہیں ملی”۔ اسی طرح حافظؒ نے بہت سی روایات کی تضعیف بھی کی ہے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ آپ علامہ ذہبیؒ کی تاریخ اسلام اٹھائیں تو رافعیؒ کی تعریفیں ابن الصلاح اور نووی رحمہما اللہ جیسے محدثین سے ملتی ہیں۔ انہوں نے امام شافعیؒ کی “مسند الشافعی” کی شرح بھی لکھی ہے۔ وہ پڑھیں تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ خود بڑے محدث تھے، علوم الحدیث کے ماہر تھے، تصحیح و تضعیف کی صلاحیت رکھتے تھے اور متون حدیث پر ان کی گہری نظر تھی۔ تو پھر بھلا یہ کیا ہے؟ “الشرح الکبیر” میں انہوں نے ضعیف اور موضوع بلکہ معدوم روایات کیسے ذکر کر دیں؟ یہ سوال بجا طور پر فقہ کے طالب کو چکرا دیتا ہے۔
کچھ ایسا ہی معاملہ حنفی فقہاء کاسانیؒ (صاحب بدائع الصنائع)، مرغینانیؒ (صاحب ہدایہ) اور دیگر فقہاء کرام کے ساتھ ہے۔ یہ حضرات بھی کئی ایسی روایات ذکر کرتے ہیں جو تخریج کرنے والوں کو نہیں ملتیں یا وہ انتہائی ضعیف ہوتی ہیں۔ یہ فقہاء کرام علمی لحاظ سے اس مرتبے کے ہیں کہ ان کے بارے میں یہ سوء ظن رکھنا انتہائی مشکل ہے کہ انہوں نے اپنے مسالک کی تائید کے لیے غلط روایات بیان کی ہوں۔ خصوصاً فقہ حنفی، جس کے اکثر مسائل ثابت شدہ قواعد فقہیہ پر مبنی ہوتے ہیں اور ان قواعد کو فقہاء کرام باقاعدہ دلیل کے طور پر ذکر کرتے ہیں، اسے آخر حدیث سے بلاواسطہ تائید کی ایسی کیا ضرورت تھی کہ اس کے لیے اس درجے پر بھی حدیثیں گھڑی جاتیں؟ فقہ حنفی دراصل فقہ اہل عراق ہے اور اس کا طرز فقہ اہل حجاز سے کافی مختلف ہے۔ اس میں عام طور پر نصوص و دلائل سے ایک قاعدہ اولاً ثابت ہوتا ہے اور پھر اس پر مسائل کی تخریج ہوتی ہے۔ اس کے بعد وہ مسائل ہوتے ہیں جو اس کے برخلاف منصوص ہوتے ہیں۔ ان کی یا تو ان قواعد کے ساتھ تطبیق کی جاتی ہے اور یا انہیں خلاف قیاس احترازی مسائل کی حیثیت دے دی جاتی ہے۔ اس پر تفصیل سے پھر کبھی بات کریں گے۔ سر دست ہم ان ممکنہ وجوہات پر غور کرتے ہیں جن کی وجہ سے کتب فقہ میں ایسی روایات آئیں:
عدم مہارت فن:
علامہ عبد الحئی لکھنویؒ فرماتے ہیں : “ہر فن کے لیے کچھ لوگ مخصوص ہوتے ہیں۔” یہ ممکن ہے کہ ایک شخص فقیہ ہو لیکن اسے علوم حدیث پر وہ ملکہ حاصل نہ ہو جو اسے فقہ پر حاصل ہو۔ اسی طرح یہ بھی ممکن ہے کہ کوئی شخص اعلی پائے کا محدث ہو لیکن اسے فقہ میں مہارت نہ ہو۔ ایسا فقیہ جسے علوم حدیث میں مہارت نہ ہو، بآسانی کتب میں ضعیف روایت ذکر کر سکتا ہے۔ لہذا ہمیں کتب فقہ میں ضعیف روایات ملتی ہیں۔ البتہ ایسا شخص اپنی طرف سے گھڑ کر روایت نہیں درج کرتا۔
اس موضوع پر جواب دیتے ہوئے عدم مہارت کا یہ عذر اکثر ذکر کیا جاتا ہے۔ لیکن ذرا غور کیجیے! یہ کتب فقہ دفعتاً نہیں لکھ دی گئیں اور نہ ہی یہ راتوں رات پبلشر کے پریس سے گزر کر منصہ شہود پر آ گئی ہیں۔ یہ تو مصنف کی سالہا سال کی محنت ہوتی تھی جسے وہ ضبط قلم میں لاتا تھا۔ پھر اس کی کتاب کئی مرتبہ اس سے سنی جاتی تھی، املاء کروائی جاتی تھی، اس پر پڑھی جاتی تھی، اس سے اس کتاب کی روایت کی اجازت لی جاتی تھی اور اس سے نقل کی جاتی تھی۔ کیا اس دوران کوئی ایسا عالم مصنف سے نہیں مل سکتا تھا جو اسے کتاب میں موجود احادیث کے ضعف سے باخبر کرتا؟ نیز اگر مصنف خود صاحب فن نہ تھا تو بالکل علوم سے جاہل بھی تو نہیں تھا۔ کیا اسے علم نہیں تھا کہ حدیث و فن حدیث کی بھی کتب ہوتی ہیں؟ کیا وہ خود کسی عالم کی جانب رجوع نہیں کر سکتا تھا۔ کیا وہ اور کچھ نہیں تو امام ترمذی و ابو داؤد رحمہما اللہ کی کتب بھی نہیں دیکھ سکتا تھا اور نہ ہی ان سے حوالہ نقل کرنے کی صلاحیت رکھتا تھا؟ یہ سوچنا بھی عجیب لگتا ہے۔ اس لیے راقم کی رائے میں یہ عذر کچھ کمزور ہے۔
روایت بالمعنی:
فقہاء کرام کے یہاں روایت بالمعنی کثرت سے ہوتی تھی۔ یعنی کسی روایت کے بجائے اس کے معانی بیان کر دیے جاتے تھے۔ محدثین کرام کو جب یہ بیان کردہ روایت ان الفاظ میں نہیں ملتی تو وہ اس پر نادر یا غیر موجود کا حکم لگا دیتے ہیں۔
یہ عذر کچھ قرین قیاس معلوم ہوتا ہے۔ کتب فقہ میں ایسی کئی روایات ملتی ہیں جن کے معانی کتب حدیث میں موجود دیگر احادیث میں ہوتے ہیں۔ لیکن یہ عذر نادر روایات کے لیے تو درست ہو سکتا ہے لیکن ضعیف روایات کے لیے اسے پیش نہیں کیا جا سکتا۔ ضعیف روایت کے تو الفاظ بعینہ موجود ہوتے ہیں، پھر انہیں روایت بالمعنی کیسے کہا جا سکتا ہے؟ نیز کئی ایسی روایات بھی کتب فقہ میں مذکور ہیں جن میں کسی شق یا قید کا اضافہ یا کمی ہے۔ یہ اضافہ یا کمی تو روایت بالمعنی سے نہیں آ سکتی۔
اختلاف جرح:
حدیث کی جرح و تعدیل کے میدان میں تین طرح کے اختلافات پائے جاتے ہیں: اصول حدیث کا اختلاف، پھر الفاظ جرح و تعدیل کا اختلاف اور اس کے بعد جرح و تعدیل دونوں کی موجودگی میں ترجیح کا اجتہادی اختلاف۔ ان تین اختلافات کی چھلنیوں سےچھن کر کسی حدیث کا حکم کسی ایک عالم کے یہاں دوسرے عالم سے مختلف ہو سکتا ہے (بلکہ کثرت سے واقع بھی ہے)۔ لہذا یہ ممکن ہے کہ کسی فقیہه کی ذکر کردہ حدیث ضعیف اس کے یا اس کے متبع عالم کے نزدیک ضعیف نہ ہو۔ البتہ یہ عذر نادر روایات کے بارے میں کارآمد نہیں ہے کیوں کہ وہ تو موجود ہی نہیں ہوتیں۔
ذکر برائے تائید:
فقہاء کرام عموماً اور فقہاء احناف خصوصاً کوئی مسئلہ بیان کرتے ہیں جس کی بنیاد کسی فقہی قاعدے پر ہوتی ہے۔ فقہی قواعد ایسے قواعد ہوتے ہیں جو شریعت مطہرہ کے مضبوط دلائل سے ثابت ہوتے ہیں (مثلاً “لا ضرر و لا ضرار” کا قاعدہ وغیرہ) اور ان قواعد سے مسائل کا استنباط کیا جاتا ہے۔ مسئلہ بیان کرنے کے بعد یہ فقہاء کرام برائے تائید اس مسئلے میں کوئی صریح روایت بھی پیش کر دیتے ہیں۔ لیکن یہ صریح روایت ضعیف ہوتی ہے۔ صاحب ہدایہ روایت پہلے ذکر کرتے ہیں اور قاعدہ عقلی استدلال کے طور پر بعد میں بیان کرتے ہیں۔
یہ عذر بھی ان ضعیف روایات کے وجود کا سبب ہو سکتا ہے۔ البتہ اس کا اطلاق نادر روایات پر کرنا ممکن تو ہے لیکن مشکل ہے۔
فقدان کتب:
امام محمدؒ نے اپنی کتاب السیر الصغیر کی شرح السیر الکبیر ساٹھ جلدوں میں تحریر کی تھی جس میں ہر مسئلے کی دلیل میں ایک حدیث مذکور تھی۔ لیکن یہ کتاب آج موجود نہیں ہے۔ پانچویں صدی ہجری کے بغدادی کاتب ابن ندیم نے امام ابو یوسفؒ اور امام محمدؒ کی جتنی کتب ذکر کی ہیں ان کا دسواں حصہ بھی کسی کو نہیں ملتا۔ امام طحاویؒ ایک شاندار محدث ہیں۔ ابن ندیم نے ان کی کئی کتابیں ذکر کی ہیں۔ ایک کتاب تو ایسی تھی جس میں اسی ابواب تھے جن میں فقہاء کے درمیان اختلافات کی تفصیل تھی اور امام طحاویؒ وہ مکمل بھی نہیں کر سکے۔ یہ کتاب بھی بالکل غائب ہے۔ اس طرح کی ان گنت کتب ہیں جن کا اب نام و نشان بھی نہیں ملتا۔
یہ کتب آخر کہاں گئیں؟ حدیث و فقہ کا اتنا بڑا ذخیرہ امت نے کیسے نہیں سنبھالا؟ اگر کوئی سنبھالنے والا نہیں تھا تو یہ کتب خانوں میں پڑی کیوں نہ رہ گئیں؟ راقم کے خیال میں اس کا جواب عالم اسلام پر تاتاریوں کے حملے میں پوشیدہ ہے۔ تاتاریوں کے حملے کا ذکر امام سیوطیؒ اپنی کتاب مشتہی العقول میں یوں کرتے ہیں: “انہوں نے سولہ لاکھ افراد کو قتل کیا اور دجلہ (کے پانی) کو کتابوں سے روک دیا۔” (یہ کتاب غالباً طبع نہیں ہوئی ہے۔ میں نے یہ حوالہ لائبریری آف کانگریس کی سائٹ سے حاصل کردہ مخطوطے سے نقل کیا ہے۔) ذرا سوچیے! وہ کتنی کتب ہوں گی جنہوں نے دجلہ جیسے دریا کا پانی روک دیا ہوگا؟ کہتے ہیں کہ دجلہ کا پانی کئی دن تک ان کتب کی سیاہی سے کالا آتا رہا تھا۔ ان کتب میں بظاہر حدیث و فقہ کی وہ عظیم کتب بھی تھیں جن کا ہم نے ذکر کیا ہے۔
ابن کثیر کے مطابق بغداد کو تاتاریوں نے 654 یا 655 ہجری میں تاراج کیا۔اب آپ دلچسپ اتفاق دیکھیے کہ کاسانی، رافعی اور مرغینانی، جن کی کتب فقہ میں یہ احادیث مذکور ہیں، اس واقعے سے پہلے کے ہیں۔ جبکہ زیلعی، ابن حجر اور ابن الملقن، جو روایات کی تخریج کرتے ہیں، اس واقعے کے بعد کے ہیں۔ اس واقعے کے بعد کے حضرات عموماً پہلے والے حضرات کی بچنے والی کتب سے نقل کرتے ہیں۔
بظاہر یوں لگتا ہے کہ ان پہلے والے حضرات کی دسترس میں جو کتب تھیں وہ بعد والوں کی دسترس میں نہیں رہیں۔ ان میں کتب حدیث بھی تھیں اور وہ کتب فقہ بھی جن میں احادیث اسناد کے ساتھ مذکور تھیں۔ ان کتب سے یہ حضرات حدیث نقل کر دیتے تھے۔ وہ احادیث ان کتب میں جن اسناد سے تھیں وہ ضعف سے پاک تھیں۔ نیز وہ اس قدر معروف تھیں کہ انہیں حوالہ دینے کی ضرورت نہیں پڑتی تھی۔ جو چاہتا وہ ان کتب خانوں میں جا کر دیکھ لیتا۔ شاید یہی وجہ ہے کہ ان کتب کی کسی معدوم حدیث پر ابن الملقن اور زیلعی رحمہما اللہ “غریب” کا اور ابن حجرؒ ” لم اجدہ” کا حکم لگاتے تھے۔ یہ حضرات اس سے واقف تھے کہ علم کے ساتھ چند عشروں قبل کیا ہوا ہے۔ غالباً اسی وجہ سے ان حضرات نے ان فقہاء پر ایسی روایات کے لکھنے کے باوجود وضع حدیث کا الزام نہیں لگایا۔ یہ راقم کا ایک سرسری تجزیہ ہے۔ اس موضوع پر باقاعدہ تحقیق کر کے مقالہ لکھنے کی ضرورت محسوس ہوتی ہے۔
یہ سب وہ ممکنہ وجوہات ہیں جن کی بنا پر کتب فقہ میں ضعیف و نادر روایات پائی جاتی ہیں۔ ان میں سے کسی کتاب میں کوئی ایک وجہ بھی ہو سکتی ہے، ایک سے زائد بھی اور تمام بھی۔ یہ اب مطالعہ کرنے والے پر منحصر ہے وہ کہاں کیا تلاش کر پاتا ہے۔
ایک روایت بطور مثال:
امام محمد رح نے السیر الکبیر میں ایک روایت نقل فرمائی ہے: “جب اہل مکہ قحط میں مبتلا ہوئے تو نبی کریم ﷺ نے پانچ سو دینار بھیجے اور یہ ابو سفیان اور صفوان بن امیہ کو دینے کا حکم فرمایا کہ وہ مکہ کے فقراء میں تقسیم کر دیں۔ ابو سفیان نے قبول کر لیے اور صفوان نے انکار کیا اور کہا: محمد (ﷺ) اس سے ہمارے نوجوانوں کو دھوکے میں ڈالنا چاہتا ہے۔”
یہ ایک بہت شاندار روایت ہے جو مسلمانوں کی عالی ظرفی بتاتی ہے اور عالمی سیاست کا ایک گر بھی سکھاتی ہے۔ لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ ہمارے پاس ساٹھ جلدوں پر مشتمل السیر الکبیر موجود نہیں ہے۔ ہمارے پاس صرف اس کتاب پر امام سرخسیؒ کی شرح ہے جس میں انہوں نے طوالت سے بچنے کے لیے روایت مختصر اور بلا سند نقل فرمائی ہے۔ یہ روایت ہمیں کسی اور کتاب میں بھی نہیں ملتی۔
امام سرخسیؒ کی عبارت یہ ہے:
وبعث رسول الله – صلى الله عليه وسلم – خمس مائة دينار إلى مكة حين قحطوا، وأمر بدفع ذلك إلى أبي سفيان بن حرب وصفوان بن أمية ليفرقا على فقراء أهل مكة. فقبل ذلك أبو سفيان، وأبى صفوان وقال: ما يريد محمد بهذا إلا أن يخدع شباننا.
(سرخسی: شرح السیر الکبیر، 1/96، ط: الشركة الشرقية للإعلانات)
ایک اشکال: کیا دین محفوظ نہیں ہے؟
یہاں اس گفتگو پر ایک اشکال ہوتا ہے کہ اگر روایات بھی ایسی ہیں جو موجود نہیں ہیں تو دین کی حفاظت کا قرآنی وعدہ کیا ہوا؟ قرآن کریم میں اللہ پاک نے خود وعدہ کیا ہے “بے شک ہم نے یہ ذکر نازل اور ہم ہی اس کی حفاظت کرنے والے ہیں۔” اگر یہ روایات موجود نہیں ہیں تو اس کا مطلب تو یہ ہوا دین کا ایک اہم حصہ یعنی احادیث مبارکہ محفوظ نہیں ہیں۔
اس کے جواب سے پہلے یہ بات سمجھنی چاہیے کہ وحی کی دو قسمیں ہیں: وحی متلو (قرآن کریم) اور وحی غیر متلو (احادیث مبارکہ)۔ ان میں صرف قرآن کریم ایسا ہے جس کے لیے تواتر کا انتظام کیا گیا ہے۔ یعنی ہر زمانے میں اسے اتنے لوگوں نے پڑھا اور آگے پہنچایا ہے کہ اس میں ایک حرف کی بھی تبدیلی ممکن نہیں رہی۔ احادیث مبارکہ میں یہ معاملہ نہیں ہوا بلکہ ان کا معنی اور مغز محفوظ ہوا ہے۔ چنانچہ کوئی بھی اس بات سے انکار نہیں کر سکتا کہ احادیث میں روایت بالمعنی موجود ہے۔ اگر ایک حدیث کے تین طرق میں تین الفاظ ہیں جو ایک ہی معنی دیتے ہیں اور تینوں صحیح ہیں تو اس کا مطلب ہے کہ یہ معنی تو بعینہ وہ ہے جو نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا ہے، لیکن الفاظ میں کوئی بھی ایک ہو سکتا ہے۔ اسی طرح احادیث کا بڑا حصہ اخبار آحاد (خبر واحد کی جمع) پر مشتمل ہے۔ یہ معروف قاعدہ ہے کہ خبر واحد میں کسی ثقہ آدمی سے بھول چوک بھی ہو سکتی ہے اور کوئی ضعیف راوی بالکل صحیح بات بھی کر سکتا ہے۔ جب حدیث میں راوی ثقہ ہوگا تو ہم اس حدیث کو صحیح سمجھیں گے لیکن امکانی حد تک یہ پھر بھی ممکن رہے گا کہ الفاظ میں کوئی کمی زیادتی ہو گئی ہو۔
اسی طرح ایسی کئی روایات ہیں جو ان کتب میں ہیں جو کافی زمانے بعد شائع ہوئیں، جیسے صحیح ابن خزیمہ میں وضع الیدین علی الصدر کی روایت۔ یہ روایات جب تک مخطوطے کی شکل سے باہر نہیں آئیں تب تک دیگر کتب میں بغیر سند کے مفہوم کی شکل میں ہی موجود تھیں۔ اسی طرح ایسی روایات بھی ہیں جن میں کسی لفظ کے ہونے یا نہ ہونے کا اختلاف ہے، جیسے مصنف ابن ابی شیبہ میں وضع الیدین تحت السرۃ کی روایت میں “تحت السرۃ” کے لفظ میں اختلاف ہے۔ ان سب مثالوں کو دیکھ کر یہ دعوی کرنا تقریباً ناممکن ہے کہ ہر حدیث مبارکہ کے الفاظ بھی بعینہ محفوظ ہیں۔ اس دعوے کو مان لیا جائے تو یہ سب چیزیں مبہم ہو جاتی ہیں۔ اوپر جو الشرح الکبیر کی روایت ذکر کی اس میں بھی یہی معاملہ ہے۔
معلوم ہوا کہ احادیث مبارکہ کی حفاظت معنی اور مغز کی شکل میں ہے۔ معنی کی شکل میں احادیث میں ہے اور مغز کی شکل میں فقہ میں ہے۔ فقہ کی تدوین سے قبل یہ مغز بکھرا ہوا تھا۔ جب فقہ کی تدوین ہو گئی تو نبی کریم ﷺ کے ہر ارشاد، ہر عمل اور ہر عمل کی مختلف کیفیات کو امت نے محفوظ کر لیا۔ آپ ﷺ نے رفع یدین فرمایا ہے تو وہ بھی محفوظ ہے اور نہیں فرمایا تو وہ بھی محفوظ ہے۔ آپ نے ناف کے اوپر ہاتھ باندھے ہیں تو وہ بھی محفوظ ہے، ناف کے نیچے باندھے ہیں تو وہ بھی محفوظ ہے اور چھوڑے ہیں تو وہ بھی محفوظ ہے۔ اگر کوئی چیز ایسی ہے جو حدیث مبارکہ میں آئی ہے لیکن امت کے نچوڑے گئے مغز میں اسے کسی نے نہیں لیا تو یہ کلام اس حدیث پر ہے، جیسے امام ترمذیؒ نے بغیر عذر، بغیر سفر اور بغیر بارش کے جمع بین الصلاتین میں ذکر کیا ہے۔ اسی طرح اگر کوئی عمل ایسا ہے جس کی حدیث کا راوی ضعیف ہے لیکن امت نے اسے مغز میں متفقہ طور پر لے لیا ہے تو یہ حدیث اس مغز کی وجہ سے مضبوط ہو جاتی ہے، جیسے بچے کے کان میں اذان دینے کے مسئلے پر اہل علم کا اتفاق اس حدیث کو مضبوط بنا دیتا ہے۔ لہذا جب کوئی روایت معناً محفوظ ہو گئی یا کتب فقہ میں اس پر مسئلے کی بنیاد پڑ گئی تو اگر وہ ہمیں نہیں ملے گی تب بھی وہ محفوظ ہو چکی ہے۔