پانچواں حصہ: تخلیق آدم اور اجزائے آدم

تخلیق آدم

جنات پر اتنی گفتگو کو کافی جانتے ہیں کیوں کہ یہ ایک پوری دنیا ہے، اور انسان کی بات کرتے ہیں جسے کائنات کے مالک نے زمین پر اپنا خلیفہ بنایا۔ سورت ہے بقرہ جو قرآن کریم کی دوسری سورت ہے، پہلا پارہ ہے اور اس کا پہلا ہی پاؤ ہے۔ انسان کی تخلیق کا تذکرہ ہے اور ایک منفرد سے انداز میں ہے: ”اور یاد کیجیے اس وقت کو جب آپ کے رب نے فرشتوں سے کہا: میں زمین میں ایک ‘خلیفہ’ بنانے والا ہوں۔“ یہ انداز منفرد اس لیے ہے کہ اور کسی مخلوق کے لیے اس طرح کا انداز قرآن کریم میں نہیں ہے۔ یہ انسان کی پیدائش کا مقصد بتاتا ہے کہ وہ اس زمین پر کیوں آیا ہے؟

خلیفہ کسے کہتے ہیں؟ حضرات مفسرین کرام میں یہاں اختلاف ہوا ہے۔ لفظ خلیفہ کے تین مطلب ہیں: “کسی کا نائب ہونا”، “کسی کے بعد آنا” اور “ایک کے بعد ایک آتے رہنا”۔ اللہ پاک کی ذات کامل و اکمل ہے۔ مخلوق میں سے انہیں کسی کی ایک لمحے کے کروڑویں حصے میں ذرہ برابر بھی ضرورت نہیں ہے۔ وہ جو ہیں مخلوق اس کا تصور بھی نہیں کر سکتی۔ تو ایسے میں انہیں زمین پر کسی نائب کی کیا ضرورت ہو سکتی تھی؟ لہذا کئی مفسرین کرام اس جانب گئے ہیں کہ یہاں تیسرا معنی مراد ہے، یعنی میں ایک ایسی مخلوق زمین میں پیدا کرنے والا ہوں جو اس میں نسل در نسل رہے گی۔

لیکن اس تفسیر پر اس وجہ سے اطمینان نہیں ہو پاتا کہ دیگر مخلوقات بھی تو زمین میں نسل در نسل رہتی ہیں۔ پھر فرشتوں سے اس کے خصوصی ذکر اور قرآن کریم میں احسان کے انداز میں اسے یاد دلانے کا کیا مطلب ہوگا؟ لہذا بعض مفسرین کرام دوسرے معنی کی جانب گئے ہیں کہ یہاں مراد زمین میں جنات کی جگہ پر ان کے بعد آنے والا ہونا ہے۔ لیکن پھر سوال پیدا ہوتا ہے کہ زمین میں تو تاریخی ریکارڈ کے مطابق اور مخلوقات موجود ہی تھیں جو جنات کی جگہ پر تھیں۔ اور روایات کے مطابق جنات بعد میں بھی آبادیوں میں رہے ہیں۔ لہذا یہ مطلب بھی درست نہیں بنتا۔

بغویؒ نے پہلے معنی یعنی اس تفسیر کو ترجیح دی ہے کہ یہاں مراد زمین میں اللہ کے احکام جاری کرنے میں نائب ہونا ہے۔ رہا یہ سوال کہ اللہ پاک کو تو اس کی ضرورت نہیں تھی تو یہ سوال اس لیے درست نہیں ہے کہ اس کائنات کے کسی ایک ذرے کی بھی اللہ پاک کو ضرورت نہیں ہے، یہ تو ان کا نظام ہے جو اس ترتیب پر جاری ہے۔ اس نظام کے مطابق آدمؑ کو زمین پر نائب بنایا گیا تاکہ وہ اللہ پاک کے احکامات کو جاری کریں۔ اس دنیا میں ہر کسی کا ایک کام ہے اور ہر کام کی انتہا اللہ پاک کی عبادت ہے: ”اور میں نے جنوں اور انسانوں کو اسی لیے پیدا کیا ہے کہ وہ میری عبادت کریں (القرآن)“۔ اس عبادت میں انسان کا کام انفرادی عبادت کے ساتھ ساتھ خلق خدا اور اہل زمین کا خیال رکھنا بھی ہے۔

زمین پر انسان سے پہلے جہاں چرند پرند تھے وہیں جنات، حن اور بن وغیرہ بھی تھے جس پر ہم تفصیلی گفتگو کر چکے ہیں۔ زمین پر انسان کی علامات دو سے تین لاکھ سال قبل کی افریقہ میں ملتی ہیں جب کہ چالیس ہزار سال قبل تک نیندرتھل وغیرہ بھی اسی زمین پر موجود تھے۔ ہماری معلومات کے مطابق یہ ہتھیار اور اوزار بناتے تھے اور شکار کرتے تھے۔ آگ کا استعمال بھی یہ جانتے تھے۔ جسم مضبوط اور حالات کو برداشت کرنے والے تھے۔ دوسری جانب جنات تھے جو آتشی مخلوق تھے۔ مختلف شکلیں اختیار کر سکتے تھے اور اڑ کر یہاں سے وہاں جا سکتے تھے۔ دونوں مخلوقات میں فساد پھیلانے کی نہ صرف قوت موجود تھی بلکہ ثانی الذکر کے بارے میں تو روایات میں موجود بھی ہے کہ وہ فساد پھیلاتے تھے۔ پہلے والے بھی بظاہر ایسے ہی لگتے ہیں۔

ایسے میں ان کے خلاف جو مخلوق بطور خلیفہ آ رہی تھی اس میں ان کی صلاحیتوں سے اعلی صلاحیت اور طاقت ہونا ضروری تھی۔ اسے ایک ہی وقت میں پھول پیش کرنا اور تلوار چلانا آنا چاہیے تھا اور اسے اس قدر ”قابل“ ہونا چاہیے تھا کہ وہ مختصر تعداد میں بھی نہ صرف اپنی بقا کر سکے بلکہ سامنے والوں کو شکست بھی دے سکے۔ ایسی قوتوں کے حامل آدمؑ جب فرشتوں کے سامنے آئے تو ان کے منہ سے تعجب سے یہ نکلنا ہی تھا: ”کیا آپ اس زمین میں اسے پیدا کر رہے ہیں جو اس میں فساد پھیلائے گا اور خون بہائے گا؟ ہم ہیں نا جو آپ کی حمد و تسبیح اور پاکیزگی بیان کرتے رہتے ہیں۔ (مفہوم آیت)“ یہ اعتراض نہیں ہے اور نہ ہی فرشتے اعتراض کر سکتے ہیں۔ یہ تفصیل جاننے کے بعد تعجب کا اظہار ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ رب کائنات جل جلالہ نے ان سے یہ کلام شروع کیا تھا۔

انسان کیا ہے؟ اس سے پہلے یہ سمجھیے کہ یہ بنا کیسے ہے؟ اس کی ابتدا ہوئی مٹی سے، مٹی جمع کی گئی اور اسے رکھا گیا یہاں تک وہ لیس دار گارا بن گیا۔ بعض روایات میں یہاں یہ الفاظ آئے ہیں ”مٹی گیلی ہوئی حتی کہ لیس دار ہو گئی۔“ یہ بالکل کیچڑ جیسی شکل ہے۔ پھر وہ مٹی خشک ہو گئی اور سڑا ہوا گارا بن گیا جس میں کھنکھناہٹ ہوتی ہے اور جس سے عجیب سی بو آتی ہے۔ اس سے اللہ پاک نے آدم کا پتلا تیار فرمایا۔ روایات میں آتا ہے کہ یہ پتلا کافی عرصہ ایسے ہی رہا۔ ابلیس آتا اور اس میں گھس کر دوسری جانب سے نکل جاتا۔ اس نے دیکھ کر سمجھا کہ یہ تو کوئی بہت ہی ناقص چیز ہے۔

زمانہ قدیم سے فلاسفہ اس دنیا کے چار عناصر مانتے ہیں: آگ، پانی، مٹی اور ہوا۔ ان چار عناصر کی چار طبیعتیں قرار دی جاتی ہیں اور یہ کہا جاتا ہے کہ زمین پر موجود ہر چیز ان ہی کی ترتیب سے بنی ہے۔ انہیں عناصر اربعہ کہا جاتا ہے۔ یہ جدید کیمسٹری کے ”عناصر“ سے مختلف چیز ہیں۔ انسان کی اس تخلیق میں ان میں سے تین عناصر واضح نظر آتے ہیں: مٹی جس سے ابتدا ہوئی، پانی جس سے لیس دار مادہ بنا اور ہوا جس سے خشک بدبودار گارا بنا۔ آگ کہاں ہے؟ کیا وہ تخلیق آدم میں استعمال ہوئی ہے؟ حضرت مفتی شفیعؒ نے تو لکھا ہے لیکن تخلیق کے اس مرحلے پر وہ نظر نہیں آتی۔

اس کے بعد گارے کے اس پتلے میں اللہ پاک نے روح پھونکی۔ یہ روح سر سے داخل ہوئی اور قدموں تک جا پہنچی (اس ترتیب کو ذہن میں رکھیے گا)۔ وہ پُتلا جیتا جاگتا انسان بن گیا۔ یہ روح کیا ہے؟ یہاں اس کی تفصیل بہت ضروری ہے کہ اس سے ہم آگے انسان کی قوتوں اور انرجی سے اس کے تعلق کو سمجھتے ہیں۔ روح کی دو قسمیں ہیں: روح علوی اور روح سفلی (معارف القرآن)۔ روح علوی وہ روح ہے جو انسان کی زندگی کی بنیاد ہے جب کہ روح سفلی انسانی جسم میں پائی جانے والی وہ قوت ہے جو جسم کو چلاتی ہے۔ یہ روح علوی کا آئینہ ہوتی ہے، وہاں سے حیات کے لیے قوت لیتی ہے اور یہاں جسم کو متحرک کرتی ہے۔ جیسے ہی اس آئینے کا اپنی اصل سے تعلق ختم ہوتا ہے فوراً انسان کے جسم کی حرکت ختم ہو جاتی ہے۔

اس کی زیادہ بہتر تشریح حضرت شاہ صاحبؒ کے یہاں حجۃ اللہ البالغہ میں ملتی ہے۔ حضرت فرماتے ہیں کہ روح کی مثال ایک روشن دان کی طرح ہے جہاں سے حیات جسم میں آتی ہے۔ جسم میں ایک چیز ”نسمہ“ ہوتا ہے جو جسم کو چلاتا ہے۔ ہم اسے جدید الفاظ میں کہیں تو جسم میں ایک توانائی یا انرجی ہوتی ہے جو اسے چلاتی ہے۔ چنانچہ جسم کے ہر خلیے میں پوٹینشل یعنی محفوظ انرجی موجود ہوتی ہے۔ یہ انرجی بوقت ضرورت ایک جگہ سے دوسری جگہ پیغام بھیجنے کے کام آتی ہے۔

مثلاً آپ نے اگر کسی گرم چیز کو ہاتھ لگایا تو یہ انرجی اس کی گرمی کا پیغام لمحے سے بھی کم وقت میں حرام مغز تک پہنچاتی ہے اور وہاں سے پیغام سیدھا دماغ کو پہنچتا ہے۔ دماغ اسے ڈی کوڈ کر کے پتا کرتا ہے کہ جس چیز کو ہاتھ لگایا ہے وہ کتنی گرم ہے۔ یہ سب کام سیکنڈ کے کسی چھوٹے سے حصے میں ہوتا ہے لیکن پھر بھی یہ وقت جلانے کے لیے کافی ہے، لہذا ہاتھ سے لے کر دماغ تک درمیان میں چھوٹے چھوٹے دماغ موجود ہوتے ہیں جو ہاتھ کو بر وقت ہٹنے کا مشورہ دے دیتے ہیں۔ اسے ہم اعصابی نظام کہتے ہیں اور جس کا یہ نظام کمزور ہو جائے اس کا ہاتھ جل جاتا ہے۔ جدید سائنس کہتی ہے کہ نارمل درجہ حرات میں کسی جاندار کے مرنے کے کئی گھنٹے بعد تک اس کے گوشت کے خلیے زندہ رہتے ہیں اور انہیں مصنوعی گوشت بنانے کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ یہ خلیے اسی نسمہ سے زندہ رہتے ہیں۔

یہ نسمہ یا توانائی جسم کے ہر حصے اور ہر عضو میں موجود ہوتی ہے اور اپنا کام کر رہی ہوتی ہے۔ اگر یہ توانائی نہ ہو تو جسم کا مادہ خود سے حرکت نہیں کر سکتا۔ شاہ صاحبؒ کے دور میں سائنس نے اتنی ترقی نہیں کی تھی اور نہ ہی ان کے دور میں ”توانائی“ کا کوئی تصور تھا۔ اس لیے وہ ایسی چیزوں کے لیے ”بخارات“ کا لفظ استعمال کرتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ انہیں اس کا علم کہاں سے ہوا؟ اس سوال کو فی الحال محفوظ رکھیے اور آگے چلیے۔ انسان کے اس مادی جسم اور نسمہ کے علاوہ اس کے کئی روحانی اجسام ہیں جو روح سفلی کا حصہ ہیں۔ ہم ان اجسام کو فی الحال توانائی کی ہی مختلف شکلیں کہہ سکتے ہیں۔ مستقبل میں ان کے لیے کوئی نیا لفظ آ گیا تو وہ استعمال ہوگا۔ حضرت شاہ صاحبؒ نے فیوض الحرمین میں ان کی تعداد دس ذکر کی ہے اور ایڈوانس رِیکی ہیلنگ والے تین یا چار تک جاتے ہیں۔ کُل کتنے ہیں؟ اللہ بہتر جانتا ہے۔

اب ان تمام چیزوں کو جمع کرتے ہیں۔ انسان کا ایک مادی جسم ہے جس میں نسمہ (انرجی کی شکل میں) دوڑتا ہے۔ دس روحانی اجسام ہیں جن میں ہم فقط ایک یا دو پر بحث کرتے ہیں اور انہیں انرجی سے بنے اجسام کہتے ہیں۔ کچھ اور بھی چیزیں (ملکی قوت، نفس وغیرہ) ہیں جن پر میں فی الحال گفتگو نہیں کر رہا۔ جنات توانائی ہیں اور جانور بشمول حن و بن مادہ۔ انسان میں بیک وقت یہ دونوں چیزیں ہیں۔ اس کی قوت سب سے منفرد ہے اور یہی اس کی خصوصیت ہے۔ اس قوت کی بنا پر یہ ان مخلوقات کے ساتھ چومکھی جنگ لڑ سکتا ہے اور ساتھ میں اپنا دفاع بھی کر سکتا ہے۔ اور ان سب قوتوں کے ساتھ اس کا خمیر مٹی سے لیا گیا ہے لہذا اس میں عاجزی کی صفت اصلاً موجود ہے۔ یہ اپنے مالک کو مالک مان کر اس کے احکام کو زمین پر نافذ کرنے کی قدرت رکھتا ہے۔

”اور یاد کیجیے اس وقت کو جب آپ کے رب نے فرشتوں سے کہا: میں زمین میں ایک ‘خلیفہ’ بنانے والا ہوں۔“ سو اللہ پاک نے انسان کو ایسا بنایا ہے کہ وہ احکام نافذ کرنے والے کے طور پر کام کر سکے۔ ابلیس شاید اس بات کو نہیں سمجھ سکا اور مادہ دیکھ کر یہ سمجھا کہ یہ مخلوق بھی زمین پر موجود حن و بن یا نیندر تھل وغیرہ جیسی مخلوق ہوگی۔ فرشتوں کے سامنے تفصیل آئی تو انہیں تعجب ہوا کہ یہ قوت تو زمین میں فساد پھیلانے کے لیے بہت ہے۔ بعض روایات میں آتا ہے کہ اللہ پاک نے انہیں یہ بتایا بھی کہ اس کی ذریت میں کچھ لوگ فساد پھیلائیں گے۔ اس پر اللہ پاک نے اپنی صفت علم کا اظہار فرمایا کہ جو وہ جانتے ہیں وہ فرشتوں کے علم میں کہاں؟ وہ تو وہ خالق ہیں جو انوکھی چیز پیدا فرماتے ہیں۔

اس کے بعد اگلا کام یہ ہوا کہ آدمؑ کو تمام ”اسماء“ سکھائے۔ یہ اسماء کیا ہیں؟ آسان الفاظ میں ہر چیز کا نام سکھایا گیا۔ لیکن قرآن کریم نے یہاں لفظ “اسم” یا “نام” کیوں ذکر کیا؟ اس سے پہلے یہ غور کیجیے کہ کیا اس وقت وہ تمام اشیاء بن چکی تھیں جن کے نام سکھائے گئے؟ یہ تو ہم واضح طور پر جانتے ہیں کہ دنیا میں چیزیں رفتہ رفتہ ایجاد ہوئی ہیں اور آج تک ہو رہی ہیں۔ آئندہ بھی بہت کچھ ایجاد ہوگا۔ اس وقت تو زمین پر انسان ہی نہیں تھا تو ایجادات کیسے ہوتیں؟ قرآن کریم نے ساتھ ہی لفظ “کلہا” بھی ذکر کیا ہے کہ تمام نام سکھائے۔ یعنی جو چیزیں آئندہ بننی تھیں ان کے اسماء بھی آدمؑ کو سکھا دیے۔ چنانچہ حضرات مفسرین کرام نے ”چمچ“ اور اس جیسی چیزوں کا ذکر کیا ہے۔

حضرت مفتی شفیعؒ نے یہاں فرمایا ہے کہ چیزوں کے خواص اور اثرات تک حضرت آدمؑ کو سکھائے گئے۔ میری ناقص رائے بھی یہی ہے کہ صرف نام تو فرشتوں کو بھی آتے ہوں گے۔ حضرت جبریل علیہ السلام وحی لے کر تشریف لاتے تھے تو نام ذکر فرماتے تھے۔ پہاڑوں کے فرشتے کا ذکر کیا تو ”پہاڑ“ نام لیا۔ انسان کی خصوصیت تو یہ ہے کہ وہ چیزوں کو جمع کر کے نتیجہ نکالتا ہے اور نتیجے کی بنیاد پر ایجاد کرتا ہے۔ عقل کا کام یہی ہے کہ انسان نے دیکھا کہ گول چیز تیزی سے لڑھک رہی ہے اور اس کے پاس چوکور پتھر ہے تو اس نے اسے گول کر کے ”پہیہ“ایجاد کر لیا۔ یہی ترتیب اس پہیے کو انجن تک بناتی گئی۔ حضرت آدمؑ کو تمام اشیاء کے نام اور خواص کا علم دیا گیا جس سے انہوں نے یہ بھی جان لیا کہ کس چیز سے کیسے کون سی چیز بنے گی اور اس سے آگے کیا بنے گا؟ یوں اپنی اصل میں ایجادات کا علم انسان کے اندر رکھ دیا گیا ہے۔ پھر یہ چیزیں فرشتوں کے سامنے پیش کی گئیں تو ظاہر ہے کہ وہ خواص کو جان نہیں سکتے تھے۔ انہیں سردی، گرمی، نشہ، بیماری، شہوت، حرص وغیرہ کا کیا علم؟ لہذا انہوں نے اپنی لا علمی کا اعتراف کر لیا۔

Facebook
Twitter
LinkedIn