ممکن ہے کہ ان میں سے ہی یاجوج ماجوج ہوں جو انسان اور کسی اور مخلوق سے پیدا ہوئے ہوں۔ یاجوج ماجوج کے بارے میں ایک چیز صحیح احادیث میں موجود ہے کہ وہ حضرت آدمؑ کی اولاد میں سے ہیں (بخاری: ٣٣٤٨)۔ اور بعض تفسیری روایات کے مطابق نوحؑ کے ایک بیٹے کی نسل سے ہیں۔ ہمیں انڈونیشیا کے جزیرے “فلوریس” سے ایسی انسان نما مخلوق کا ڈھانچہ ملتا ہے جس کا سائز ساڑھے تین فٹ تھا۔ یہ ڈھانچہ ساٹھ ہزار سے ایک لاکھ سال قبل کا ہے۔ میں تفصیل سے ذکر کر چکا ہوں کہ انسان کے اولین آثار دو سے تین لاکھ سال پرانے ہیں اور دیگر انسان نما مخلوقات تقریبا چالیس ہزار سال قبل تک زمین پر رہی ہیں۔ ایسے میں یہ بالکل ممکن ہے کہ ان میں بالشتیوں کی طرح کی مخلوقات ہوں اور قدیم انسان نے ان سے کہیں ایسا ملاپ کیا ہو جس سے وہ نسل تیار ہوئی ہو جو یاجوج ماجوج کی صفات پر پوری اترتی ہو۔ یہ بھی یاد رہے کہ یاجوج ماجوج کے سائز کے حوالے سے روایات مضبوط نہیں ہیں۔
تخلیق کائنات پر گفتگو کرنے کا مقصد ان بنیادوں کو سمجھنا تھا جن کی آگے ہمیں انرجی سے متعلق مختلف چیزوں میں ضرورت پڑے گی۔ اگر طوفان نوح اور یاجوج ماجوج کی بحث کو چھیڑا تو یہ موضوع مزید کئی حصوں میں پھیل جائے گا۔ آگے کہیں اگر زمینوں یا راستوں کے ذکر میں ضرورت ہوئی تو اس بات کو کریں گے، ورنہ اسے یہیں چھوڑتے ہیں اور اپنے موضوع کی جانب چلتے ہیں۔
انرجی اور لائف فورس
اب تک جو ہم گفتگو کر چکے ہیں اس میں ہم نے یہ بات کی ہے کہ کائنات کی تمام اشیاء کا وجود انرجی سے ہے۔ یہی وہ بنیاد ہے جس پر آئن اسٹائن کی مساوات (E=mc2) کھڑی ہے۔ ہم سائنسی طور پر انرجی کی صرف بعض اشکال جانتے ہیں اور باقی سے ابھی پارٹیکل فزکس بھی ناواقف ہے۔ یہاں یہ بات ذہن میں رکھنی چاہیے کہ کسی چیز کے سائنسی طور پر ثابت نہ ہونے کا یہ مطلب نہیں ہوتا کہ وہ موجود نہیں ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ ابھی تک ثابت نہیں ہوئی ہے اور مستقبل میں ہو سکتی ہے۔ پارٹیکل فزکس میں “نیوٹرینو”، “ہگز بوسون” اور “کوارکس” ایسی ہی چیزیں ہیں جو بیسویں صدی کے نصف کے بعد ثابت ہوئیں۔ اس سے پہلے سائنس ان کو ثابت کرنے سے عاجز تھی۔ ہمارے یہاں بہت سے لوگ اس بات کو غلط سمجھ کر ان چیزوں کا انکار کر دیتے ہیں جو سائنس ثابت نہیں کر پاتی، حالانکہ وہ اس وقت کی موجودہ پریکٹس کی کمی ہوتی ہے۔ چونکہ اس سے آگے جو ہم گفتگو کرنے جا رہے ہیں وہ ما بعد الطبیعیات (میٹافزکس) سے تعلق رکھتی ہیں لہذا اس کے لیے ہم سائنس کی جانب بہت کم جائیں گے اور تجارب اور روایات و واقعات کو زیادہ دیکھیں گے۔
جب اللہ پاک نے زمین و آسمان کو پیدا کیا تو یہاں توانائی کے سلسلے قائم فرمائے۔ ان میں سے ایک “لائف فورس” ہے۔ اس کی جڑیں ہمیں قدیم ترقی یافتہ تہذیبوں کے یہاں ملتی ہیں۔ چنانچہ چین میں تین ہزار قبل مسیح سے ہمیں “چی” کا تصور ملتا ہے جو ایک ایسی قوت ہے جو تمام جانداروں میں اور اس کائنات میں ہر جانب پائی جاتی ہے۔ یہ قوت جانداروں کو زندگی یعنی حرکت دیتی ہے اور اس کی کمی سے وہ بیمار ہو جاتے ہیں۔ یاد رہے کہ یہاں ہم جاندار میں پودوں کو بھی شامل کر رہے ہیں۔ قدیم چینی اسے پھر تین قسموں میں تقسیم کرتے ہیں: جنگ، چی اور شین۔ میں ان کی تفصیل میں نہیں جاتا۔ مختصراً “شین” انسان میں “ملکی قوت” کی طرح کی ایک چیز ہے جو اچھے اعمال سے بڑھتی ہے۔ لیکن اس میں اور حقیقی “ملکی قوت” میں فرق ہے۔
قدیم ہندوستان میں یعنی تقریباً پندرہ سو قبل مسیح کے آس پاس “پرانہ” کا تصور ملتا ہے جو ایک کائناتی قوت ہے اور تمام جانداروں میں پائی جاتی ہے۔ یہ جسم میں “ندیوں” اور “چکروں” کے ذریعے بہتی ہے۔ آیوروید (قدیم ہندوستانی طریقہ علاج) میں دیگر دوشاؤں (قوتوں) کے ساتھ اسے بھی استعمال کیا جاتا ہے۔
مصر میں تین ہزار قبل مسیح میں “کا” کا تصور ملتا ہے جو ایک ایسی روحانی قوت ہے جو تمام جانداروں میں پائی جاتی ہے۔ یہ قوت ان کے بدن کے ساتھ تعلق رکھتی ہے۔ مصریوں کے مطابق ان کے دیوتا “آتم” نے جب دنیا بنائی تو اس میں جادو استعمال کیا۔ جب انسان بنے تو یہ جادو ان میں مختلف قوتوں کی شکل میں آیا جن میں سے ایک “کا” ہے۔
قدیم یونان میں پانچ سو قبل مسیح سے دو سو بعد مسیح تک ہمیں “نیوما” کا تصور ملتا ہے جسے بقراط اور ارسطو وغیرہ استعمال کرتے ہیں۔ اس کا مطلب تو “ہوا” ہے لیکن یہ ایسی ہوا یا سانس ہے جو جانداروں میں رہتی ہے، انہیں ان کے بچوں سے تعلق دیتی ہے اور ان میں حرکت پیدا کرتی ہے۔ یہ وہی تصور ہے جو اوپر بیان ہوا۔ یونانی اسے طبی مقاصد کے لیے استعمال کرتے تھے۔
تبتی تہذیب میں ساتویں صدی عیسوی میں “لونگ” کا تصور ملتا ہے جو جسم میں توانائی کی گردش کو متوازن رکھتی ہے اور زندگی دیتی ہے۔ مایا تہذیب میں “چولل” ہے جس کا تصور دو سو قبل مسیح سے پایا جاتا ہے اور یہ انسان اور کائنات کا تعلق قائم کرتی ہے۔ اسلامی تہذیب میں روح سفلی کا بیان ملتا ہے اور جدید یورپی تہذیب میں “وائٹل فورس”، “یونیورسل انرجی” اور “لائف فورس” پائی جاتی ہے۔
یہ تمام تہذیبیں کسی ایک نکتے پر جب متفق ہوتی ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ اس چیز کی کچھ نہ کچھ حقیقت ضرور ہے ورنہ یہ ایک جیسی بات ہر جگہ اور ہر زمانے میں کیسے پھیل سکتی تھی؟ یہاں یہ بھی ذہن میں رہنا چاہیے کہ تین ہزار قبل مسیح سے پرانی تاریخ کے ریکارڈز ہمارے پاس بہت کم موجود ہیں ورنہ یہ چیز ہمیں وہاں بھی مل سکتی تھی۔
مثبت و منفی توانائی
“لائف فورس” کا یہ تصور عموماً یوں سمجھا جاتا ہے کہ یہ ایسی کائناتی قوت ہے جو صرف تخلیق اور تعمیر کا کام کرتی ہے، تخریب کا نہیں کرتی۔ لیکن یہ تصور درست نہیں ہے۔ بلکہ اس کائناتی قوت کے بھی دو رخ ہیں: مثبت اور منفی۔ چنانچہ چینیوں کے یہاں “چی” کی دو شکلیں “ین” اور “یانگ” کی شکل میں پائی جاتی ہیں جو “کنگ فو” کے سمبل میں سیاہ اور سفید شکل میں ہوتی ہیں۔ ہندو مت میں “دیو” مثبت اور “اسور” شر یا منفی ہیں۔ زرتشت میں “اہورا مزدا” اور “اہریمان” ہیں اور یہودیوں کے “کبالا” علم میں منفی قوت “کلپوتھ” ہے۔ لیکن یہ ذہن میں رہنا چاہیے کہ ان سب کی تشریحات ایک دوسرے کے قریب تو ہیں لیکن ایک جیسی نہیں ہیں۔
ہم یہاں چینیوں کی تشریح کو بحث کے لیے لیتے ہیں کیوں کہ وہ نسبتاً زیادہ قدیم اور واضح ہے۔ ان کے مطابق دنیا میں دو قوتیں “ین” اور “یانگ” ہیں۔ “یانگ” مثبت اور روشن قوت ہے جب کہ “ین” منفی اور تاریک، لیکن یہ تاریکی یا روشنی اس معنی میں ہے کہ دونوں مل کر بیلنس بنتا ہے۔ اگر یانگ بڑھ جائے تو انسان میں شدت بڑھ جاتی ہے اور ین بڑھ جائے تو کمزوری اور ڈپریشن ہو سکتا ہے۔ ان کے علاوہ ایک “شا چی” بھی ہوتی ہے جو مطلقاً منفی یا تاریک ہوتی ہے۔
آخر میں بغیر کسی بحث کے ایک حدیث مبارکہ پڑھیے! اس حدیث پر کئی قسم کی ابحاث ہیں لیکن میں ان سے قطع نظر اسے ذکر کر رہا ہوں:
“حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے میرا ہاتھ پکڑا اور فرمایا: اللہ پاک نے مٹی کو ہفتے کے دن پیدا کیا، اور اس میں پہاڑوں کو اتوار کو بنایا، ان میں درخت پیر کو بنائے، مکروہ کو منگل کو پیدا کیا اور نور کو بدھ کو، جمعرات کو اس میں جانور پھیلائے اور آدمؑ کو جمعے کے روز مخلوق میں سب سے آخر میں، جمعے کی آخری ساعات میں عصر اور رات کے درمیان پیدا کیا۔” (مسلم)
میرے حساب سے یہ حدیث صحیح بھی ہے اور اس کا متن بالکل واقع کے مطابق بھی ہے۔ زمین کی تخلیق کی ترتیب یہی ہے کہ پانی سے مٹی بنی، وہ سخت ہوئی تو پہاڑ بنے، ان پر واٹر سائیکل چلا تو سبزہ اور درخت لگا، ان میں جانور آئے اور آخر میں انسان۔ بیچ میں جو مکروہ اور نور کا ذکر ہے یہ ایک زبردست چیز ہے جو عموماً دیگر روایات میں نہیں ملتی۔ اس میں مکروہ کی تشریح مناویؒ نے شر سے کی ہے اور نور کی خیر سے، اور مجھے لگتا ہے کہ سب سے قریب ترین تشریح یہی ہے۔ ایام کی ترتیب غالباً علامتی ہے۔