چھٹا حصہ: تخلیق آدمؑ اور نظریہ ارتقاء

تخلیق آدم اور نظریہ ارتقاء

اس کے بعد پھر اگلا مرحلہ آیا۔ اللہ پاک نے فرشتوں کو حکم دیا کہ آدمؑ کو سجدہ کریں۔ شیطان فرشتوں کی صف میں تھا اور یہ اس کی خصوصیت تھی۔ اس نے سجدہ کرنے سے انکار کر دیا کہ میں اس سے افضل ہوں، آگ سے بنا ہوں اور یہ مٹی سے بنی مادی مخلوق ہے۔ میں ہزاروں کلو میٹر لمحوں میں پار کر جاتا ہوں اور سمندر پر اپنا تخت لگا سکتا ہوں، یہ خشکی پر پیدل چل کر لمبے سفر طے کرے گا اور سمندر کنارے رک کر اس کی وسعت سے عاجز آ جائے گا۔ میں آسمانوں میں اڑتا ہوں، یہ زمین میں کھڑے ہو کر لاچار اوپر دیکھا کرے گا۔ وہ یہ سب اندازے ”مٹی“ یعنی مادے کو دیکھ کر لگا رہا تھا: ”تو نے مجھے آگ سے پیدا کیا ہے اور اسے مٹی سے“ اور ”کیا میں اسے سجدہ کروں جسے تو نے مٹی کی شکل میں بنایا ہے؟“

فرشتوں نے حکم ملتے ہی سجدہ کر لیا۔ حضرات مفسرین کرام نے اس پر گفتگو کی ہے کہ سجدے کا کیا مطلب تھا اور کیا سب نے کیا تھا یا بعض نے؟ قرآن کریم کے الفاظ واضح ہیں کہ سب نے سجدہ کیا تھا۔ شیطان جانتا تھا کہ یہ سجدہ صرف سجدہ نہیں ہے، یہ آدم کی تعظیم ہے اور آدم کی تعظیم کا مطلب ہے میری چودھراہٹ کا اختتام۔ لیکن جب فرشتوں نے سجدہ کیا تو شاید اسے یہ سمجھ تو آ گئی کہ یہ مخلوق الگ چیز ہے، ڈائریکٹ میرے کنٹرول میں نہیں آئے گی۔ اسے مجھے گمراہ کرنا ہوگا۔ اس لیے اس نے اس کے بعد گمراہ کرنے کا ہی ذکر کیا ہے۔ اللہ پاک ہماری اس سے حفاظت فرمائیں۔ آمین

نظریہ ارتقاء اور اس میں مسائل

تخلیق آدمؑ کے اس سارے قضیے میں ”ارتقاء“ کا نظریہ کہیں فٹ ہوتا ہے؟ اس کا جواب نفی میں ہے۔ ارتقاء کا نظریہ نہ تو اس قرآنی قصے کے مطابق ہے اور نہ ہی عقل کے۔ نظریہ ارتقاء کہتا ہے کہ زمین پر انسان جیسی مخلوقات آباد تھیں جو وقت کے ساتھ ساتھ ترقی کر رہی تھیں۔ ہر دور میں جو مخلوق اس دور کے حالات کے مطابق ہوتی تھی وہ باقی رہ جاتی تھی اور باقی ختم ہو جاتی تھیں۔ یوں ہی آپس کی جنگوں میں جو زیادہ فٹ ہوتے تھے وہ بچ جاتے تھے۔ یہ سسٹم یوں ہی چلتا ہوا غیر افریقہ میں ”نیندرتھل“ اور ”ڈینی سووین“ تک اور افریقہ میں ”ہومو ایریکٹس“ تک پہنچا جن کی خصوصیت یہ تھی کہ ان کے جسم سردی کے خلاف مزاحمت کر سکتے تھے، ان کے دماغ نسبتاً زیادہ کام کرتے تھے، وہ پتھر کے اوزار بنا لیتے تھے اور آگ کا استعمال کر لیتے تھے۔ البتہ ان میں اس سے زیادہ صلاحیت نہیں تھی۔

افریقہ میں ”ہومو ایریکٹس“ اپنے سے پہلے موجود ”ہومو ہیبیلس“ سے ارتقاء کر کے بنے تھے جن کا دماغ چھوٹا ہوتا تھا۔ ”ہومو ایریکٹس“ کا دماغ ان سے بڑا تھا تو ان کی دماغی صلاحیتیں بھی زیادہ تھیں جب کہ ”ہومو سیپئن“  یا جدید انسانوں کا دماغ ان سے بھی بڑا تھا جس نے انہیں جدید صلاحیتیں دیں۔ غیر افریقہ میں ارتقاء کا سلسلہ مزید آگے نہیں بڑھ سکا۔ افریقہ سے ”ہومو سیپئن (جدید انسان)“ نے ایشیا اور دیگر جگہوں پر ہجرت کی اور وہاں موجود نینڈرتھلوں اور ڈینی سووینوں سے ملاپ کیا۔ چنانچہ وہاں بھی انسانی نسل آگے بڑھی اور وہاں کے کچھ لوگوں میں آج بھی نیندرتھل یا ڈینی سووین کے کچھ جینز پائے جاتے ہیں۔

اب یہاں کچھ گڑبڑ ہے:

اول: دنیا میں ایسا کوئی انسان نہیں ہے جس کے جینز میں ”ہومو سیپئن“ نہ ہوں اور وہ صرف ”نینڈرتھل“ وغیرہ سے بنا ہو۔ یعنی موجودہ انسانوں کے تمام جینز میں ”ہومو سیپئن“ (جسے ہم انسان کہتے ہیں) ضرور موجود ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ صرف نینڈرتھل، صرف ڈینی سووین یا نیڈرتھل اور ڈینی سووین کے مجموعے نے ارتقاء نہیں کیا اور باقی نہیں رہے۔ صرف ہومو سیپئن باقی رہے ہیں۔ اگر ارتقاء اسی طرح ہو رہا تھا جیسے بیان کیا جاتا ہے تو ان تینوں مخلوقات میں نظر آنا چاہیے تھا۔ یہ صرف ہومو سیپئن میں کیوں ہوا ہے اور باقیوں میں کیوں نہیں؟

دوم: ”ہومو سیپئن“ کے آباء و اجداد ”ہومو ایریکٹس“ تھے لیکن ان کا ڈی این اے ریکارڈ فی الحال موجود ہی نہیں ہے جس سے یہ کہا جا سکے کہ وہ واقعی تمام ہوموسیپئن میں پائے جاتے ہیں۔ ایک پراسرار جینز ہمیں ملتا ہے لیکن وہ تمام ہومو سیپئنز میں نہیں ہے۔ بغیر ریکارڈ اور ڈیٹا کے یہ کہہ دینا کہ “ہومو ایریکٹس” سے ارتقاء کر کے “ہومو سیپئن” بنے ہیں، ایک بلا دلیل دعوی اور فرضی قیاس ہے۔ یہ ارتقاء کسی نے دیکھا تو ہے نہیں کہ کوئی مشاہداتی دلیل اس پر ہو، پھر یہ دعوی بھلا کس بنیاد پر کیا جا سکتا ہے۔

سوم: “ہومو ایریکٹس” نے بھی افریقہ سے ہجرت کی تھی اور نینڈرتھل، ڈینی-سووینوں کے علاقوں میں آئے تھے اور وہاں ایک لاکھ دس ہزار سال قبل تک رہے۔ نیندرتھلز کا زمانہ چار لاکھ سال سے چالیس ہزار سال قبل تک کا ہے۔ یعنی درمیان کے ستر ہزار سال کے علاوہ باقی وقت دونوں ساتھ رہے ہیں۔ لیکن اس کے باوجود ایسے انسان موجود نہیں ہیں جن کے جینز صرف ان دو سے مل کر بنے ہوں اور ہومو سیپئینز ان میں نہ ہوں۔ اگر ارتقاء کا سلسلہ درست ہے تو نیڈرتھلز اور ہومو ایریکٹس کے ملاپ سے ایسی مخلوق لازماً پیدا ہونی چاہئیے تھی جو “فٹسٹ” ہوتی اور سروائیول کرتی۔ صرف ہومو سیپئینز ہی کیوں نظر آتے ہیں؟

چہارم: ارتقاء کے نظریے کے مطابق ”ہوموسیپئن“  بنے ہیں “ہومو ایریکٹس” سے، جن کا دماغ “ہومو سیپئین” سے چھوٹا تھا اور وہ بنے ہیں “ہومو ہیبیلس” سے جن کا دماغ ان سے بھی چھوٹا تھا۔ یعنی جیسے جیسے دماغ بڑھتا رہا ویسے ویسے جدید انسان بنتا گیا۔ لیکن حیرت انگیز طور پر جدید انسان یعنی ہومو سیپئن کی جدید نسل کا دماغ قدیم جتنا ہی یا اس سے چھوٹا ہے جب کہ صلاحیتیں قدیم سے ہزار گنا زیادہ (نظریہ ارتقاء کے مطابق) ہیں۔ اس کا مطلب تو یہ ہوا کہ جدید انسان میں ارتقاء قدیم کی طرح ہو ہی نہیں رہا بلکہ یہ الٹ یا معکوس ارتقاء ہے۔ آخر کیا وجہ ہے کہ ارتقاء کا سلسلہ ایک دم الٹ گیا ہے؟ اور اگر نظریہ ارتقاء درست ہے تو دماغ چھوٹا ہونے پر صلاحیتوں میں کمی کیوں نہیں ہو رہی؟

پنجم: جس وقت یہ تمام سلسلہ چل رہا تھا اس وقت دنیا میں برفانی دور یا ”آئس ایج“ جاری تھا۔ نیندرتھلز اور ڈینی-سوینز اس ”آئس ایج“ کے لیے جسمانی طور پر زیادہ موزوں تھے۔ ہوموسیپئین افریقہ کے تھے جہاں آئس ایج کا اتنا اثر نہیں تھا۔ بہترین کے باقی رہنے کے اصول کے مطابق نیندرتھلز اور ڈینیسوینز کو باقی رہنا چاہیے تھا اور سرد علاقوں میں ہوموسیپئین کے جینز کو ختم ہوجانا چاہیے تھا۔ خصوصاً اس دور میں جب انسان کی ضروریات سادہ تھیں اور نیندرتھلز کا دماغ ان ضروریات کے لیے بہت موزوں تھا (ان کے دماغ میں سوچ سمجھ کم اور بصارت، سماعت وغیرہ زیادہ تھیں)۔ جب نیندرتھلز کا جسم مضبوط تھا، ضروریات سادہ تھیں اور دماغ ان ضروریات کے لیے کافی تو ہوموسپئن کے بجائے وہ “فٹسٹ” تھے اور سروائیول انہیں کرنا چاہیے تھا۔ یا کم سے کم ہوموسیپئن کے ساتھ سروائیول کرنا چاہیے تھا اور موجود رہنا چاہیے تھا۔

یہ سب چیزیں مل کر کیا نتیجہ نکالتی ہیں؟ نیندرتھلز سے تو جدید انسان قطعی طور پر نہیں بنا (ڈی این اے واضح ہے) اور ہوموایریکٹس سے بننے کا نہ تو ثبوت ہے اور نہ ہی ارتقائی انداز اس جیسا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ جدید انسان ایک الگ سے مخلوق ہے۔ اس مخلوق نے آگے چل کر بعض اوقات نیندرتھلز یا ڈینی-سوینز سے ملاپ کیا جس سے ان کے جینز ان میں سے بعض میں آئے لیکن اس کی پشت مکمل طور پر ان تینوں سے آتی ہوئی نظر نہیں آتی۔ اس کے لیے بے شمار تاویلیں کی جائیں تب ہی یہ ممکن ہے کہ اسے ان کی ہی اولاد کہا جائے۔ نظریہ ارتقاء یہاں ہمیں فیل نظر آتا ہے۔

نظریہ ارتقاء کی تائید میں اشکالات

البتہ یہاں کچھ اشکالات ہیں:
اول: سائنس میں “نظریہ” محض رائے نہیں ہوتا، بلکہ وہ مشاہدات اور تجربات کے تسلسل سے جنم لیتا ہے۔ اب اگر نظریہ ارتقاء مشاہدات سے ثابت نظریہ ہے تو اسے صرف سوالات سے رد کیسے کیا جا سکتا ہے؟

جواب: ارتقاء کئی لیولز یا سطح پر ہوتا ہے۔ مثلاً

  1. مائکرو ارتقاء (Micro Evolution): جیسے کسی نسل میں رنگ یا قد میں معمولی فرق۔ یہ قابل مشاہدہ ہے اور قابل قبول بھی۔

  2. میکرو ارتقاء (Macro Evolution): ایک مخلوق سے دوسری مخلوق کا وجود۔ یہ ابھی صرف قیاس ہے، مشاہدہ یا تجربہ نہیں۔ لیکن جانوروں میں اسے پھر بھی کسی حد تک تسلیم کیا جا سکتا ہے۔

  3. انسان کا ارتقاء: یہ سب سے نازک دعویٰ ہے کیونکہ یہاں صرف جسمانی نہیں بلکہ شعوری، اخلاقی اور روحانی پہلو بھی شامل ہیں۔ اور یہی پہلو اسے حیوانات سے الگ کرتے ہیں۔ ہر چیز میں اتنا زیادہ ارتقاء ہونا کہ سب کچھ بدل جائے، اس کا مشاہدہ تو ظاہر ہے کہ نہیں ہے۔ صرف قیاسات ہیں اور قیاسات کا رد ان پر ہونے والے اشکالات کی بنا پر ہی ہوتا ہے۔ آپ اگر اوپر اشکالات دیکھیں تو ان میں کوئی بھی کمزور اشکال نہیں ہے۔ ایک تھیوری بناتے وقت ان سب کا جواب تلاش کرنا ضروری ہے۔

دوم: انسان اور چمپینزی کے اٹھانوے سے ننانوے فیصد جینز ایک جیسے ہیں۔ کیا اس سے یہ معلوم نہیں ہوتا کہ انسان کبھی نہ کبھی چمپینزی سے ارتقاء کر کے بنا ہے؟

جواب: یہاں بھی کچھ چیزیں سمجھنے کی ہیں:

  1. انسان کے جینز بہت سی چیزوں سے مشترک ملتے ہیں۔ مثلاً کیلے اور انسان کے ساٹھ فیصد جینز ایک جیسے ہیں لیکن یہ ناممکن ہے کہ انسان کیلے سے ارتقاء کر کے بنا ہو۔ بظاہر وجہ یہ ہے کہ چونکہ یہ تمام کسی نہ کسی لیول پر زمین اور مٹی سے نکلے ہیں لہذا ان کے جینز آپس میں مشترک ہیں۔ جس کے زیادہ مشترک ہیں (جیسے چمپینزی) تو اس کی مماثلت بھی زیادہ ہے اور جس کے کم مشترک ہیں تو مماثلت بھی کم ہے۔
  2. جین کے اشتراک میں جس طرح یہ ممکن ہے کہ انسان نے چمپینزی سے ارتقاء کیا ہو اسی طرح یہ بھی ممکن ہے کہ چمپینزی نے انسان سے تنزلی کی ہو۔ انسانوں نے کسی ایسی مخلوق سے ملاپ کیا ہو جس سے چمپینزی بنے ہوں۔ بغیر کسی دلیل کے یہ کہنا نہایت مشکل ہے کہ یہاں ارتقاء ہی ہوا ہے اور تنزلی نہیں۔ آخر ہم نے انسان کو آخری مخلوق کیوں مان لیا ہے؟
  3. ارتقاء کا نظریہ ایک طویل سلسلہ بیان کرتا ہے جس میں چمپینزی سے ہومو ہیبیلس تک اور وہاں سے ہومو سیپئن یعنی جدید انسان تک کئی مخلوقات ہیں۔ سوال یہ ہے کہ اگر چمپینزی بھی سروائیول کے لیے فٹ تھا اور ہوموسیپئن بھی تو درمیان کی مخلوقات جنہوں نے چمپینزی سے ارتقاء کیا تھا، یعنی ان کی صلاحیتیں چمپینزی سے زیادہ تھیں، وہ کیوں باقی نہیں رہے؟ انہیں بھی پھر موجود ہونا چاہیے تھا۔

خلاصہ یہ ہے کہ انسان اور چمپینزی کی مماثلت دیگر بہت سی چیزوں کی طرح ہے، یہ ارتقاء کی دلیل نہیں ہے۔

سوم: ایک دلیل جینیات میں جو دی جاتی ہے وہ انسانوں کے جین میں کچھ وائرسز (ای آر وی) کی باقیات ہیں جو دیگر مخلوقات کے جین میں بھی ہو بہو موجود ہیں۔ اب تک جینیاتی سائنس کے مطابق وائرس کی باقیات کا جینز کے ایک ہی حصے میں موجود ہونے کا امکان صرف اس صورت میں ہے جب یہ نسل در نسل اولاد میں ٹرانسفر ہوا ہو۔

جواب: یہ درست ہے کہ انسانوں اور دیگر مخلوقات کی جینز میں ایسے وائرسز کی باقیات ہیں جو ایک جیسی ہیں، لیکن یہ کہنا محل نظر ہے کہ یہ صرف توالد کے نتیجے میں ہی ممکن ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس وائرس کے پائے جانے کے جتنے امکانات ہو سکتے ہیں وہ ہمارے سامنے نہیں ہیں، یہ ایک بے انتہا طویل پراسس ہے اور ہمارا مشاہدہ پورے پراسس کا نہیں ہے تو ہم نے صرف ایک امکان “توالد” کو لے لیا ہے۔ مثلاً “ای آر وی ایف سی” انسانوں میں اور بے شمار ممالیوں میں پایا جاتا ہے جن میں چوہے بھی ہیں۔ ارتقاء کے ٹری میں چوہے کے اجداد کو بھی شامل کیا گیا ہے لیکن یہ صرف تھیوری میں ہے، عملاً اس کا ہونا بہت پیچیدہ ہے۔ ہم اسے اپنی وحی کی معلومات کی روشنی میں پرکھیں تو ہم یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ چونکہ جانوروں اور انسان کا ابتدائی مادہ مٹی ہے اور روایات میں آتا ہے کہ آدم علیہ السلام کی تخلیق کے لیے کئی علاقوں کی مٹی لی گئی تو اس لیے ایک جیسی یہ چیزیں بھی موجود ہیں۔ اب یہ کس طرح ہیں تو ہمیں اس کا مشاہداتی علم ہے نہیں اور ممکن بھی نہیں ہے، تو ہم مختلف اندازے لگا رہے ہیں۔ ان اندازوں کی بنا پر جو نتائج ہم نکال رہے ہیں ان پر پھر اوپر مذکور اشکالات ہوتے ہیں۔

قرآن کریم کے انداز کو دیکھیں تو یہ ناممکن نظر آتا ہے کہ ایک ایسا طویل ارتقائی سلسلہ جاری ہو اور پھر اس سے ایک دن ایک ایسا کامل انسان بنے جسے آسمان پر اٹھایا جائے، فرشتوں سے سجدہ کروایا جائے اور جنت میں بھیج دیا جائے جہاں سے وہ واپس اسی زمین پر آئے جس پر پہلے ہی اس کے بھائی بند رہتے ہوں لیکن وہ پھر بھی اس زمین پر تنہا ہو۔ یہ ساری باتیں آپس میں ملتی ہی نہیں ہیں۔

لہذا سیدھی اور واضح چیز یہی ہے کہ آدمؑ کی پیدائش وہاں ہوئی جہاں فرشتے رہتے تھے۔ ان سے اماں حوا کی پیدائش ہوئی۔ زمین پر آنے کے بعد ان دونوں سے آگے نسل چلی۔ انبیاء آتے رہے جو دنیا میں رہنے کا طریقہ اور جدید علوم سکھاتے رہے۔ دوسری نسلوں سے ٹکر ہوئی تو انہوں نے اپنی عقل اور علم کا سہارا لے کر انہیں شکست دی اور خود کو بڑھاتے رہے۔ پھر جب ان میں گڑبڑ پیدا ہوئی تو طوفان نوح آیا جس کے بعد سب سے پہلا کام یہ ہوا کہ یہ دنیا میں پھیل گئے۔ یہاں ان میں سے بعض نے دوسری مخلوقات سے جنسی ملاپ بھی کیا جو یقیناً ایک ناقابل قبول چیز تھی۔ جو نسل آئی ان میں سے کچھ انسان پر گئے تو ان میں دوسروں کے جینز رہ گئے، اور جو انسان پر نہیں گئے وہ دوسروں کے ساتھ ختم ہو گئے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn