بات کچھ یوں ہے کہ جب “کن” کا ارادہ وجود میں آیا (اللہ پاک کی ذات گرامی “کن” کے کہنے کی محتاج نہیں ہے، قرآن کہتا ہے کہ “کن” کا ارادہ ہوتے ہی کام ہو جاتا ہے) اور باری تعالیٰ نے چاہا کہ مخلوق کو پیدا فرمائیں تو زمین و آسمان پیدا ہوئے۔ صوفیاء کرام میں یہاں ایک روایت ذکر کی جاتی ہے کہ “میں چھپا ہوا ایک خزانہ تھا اور میں نے چاہا کہ پہچانا جاؤں۔۔۔” لیکن محدثین کرام اسے من گھڑت اور بے سند فرماتے ہیں۔
ترتیب قرآنی برائے تخلیق ارض و سماء
زمین و آسمان کی پیدائش کی ترتیب قرآن کریم میں کچھ یوں ہے:
1۔ زمین کو آسمان سے پہلے پیدا کیا۔
2۔ آسمان دھواں تھا، اسے بنایا۔
3۔ زمین کو اس کے بعد بچھایا۔
حضرات مفسرین کرام (طبری عن ابن عباس رض) فرماتے ہیں کہ اللہ پاک نے پہلے زمین کے مادے کو پیدا کیا، پھر آسمان کو بنایا جو دھواں یعنی اس پانی کے بخارات تھے جس پر عرش تھا (مجموع الفتاوی، ابن کثیر)، پھر اس کے رات اور دن بنائے اور پھر زمین کو پیدا فرمایا۔ یہ ترتیب قرآن کریم کے الفاظ و انداز کے عین مطابق ہے۔
اب تک ہم اپنی فلکیات کی محدود ترین معلومات کی روشنی میں یہ جانتے ہیں کہ ستارے اور سیارے گیسز سے بنتے ہیں اور کہکشاں کے دور دراز کونوں میں تاحال بن رہے ہیں جن کے بادل ہم نے “جیمز ویب” سے دیکھے ہیں۔ حیرت انگیز طور پر یہ وہی بات ہے جو قرآن کریم نے دھویں کے الفاظ سے ذکر کی ہے کہ آسمان دھواں تھا، اسے اور زمین کو کہا کہ چاہو یا نہ چاہو، آ جاؤ یعنی کام پر لگ جاؤ، انہوں نے کہا کہ ہم بخوشی حاضر ہیں۔ لہذا آسمان آج تک اس دھویں سے تعمیر ہو رہا ہے اور پھیل رہا ہے جسے قرآن کریم نے اس سے تعبیر کیا ہے کہ “ہم اسے پھیلانے والے ہیں۔”
لیکن اس دھویں سے پہلے کیا تھا؟ زمین و آسمان ایک جگہ تھے۔ ان کے مادے ایک دوسرے سے الگ نہیں تھے۔ روایات میں آتا ہے کہ صرف پانی تھا لیکن کیسا پانی تھا؟ اس کی حقیقت ہمارے علم میں نہیں ہے۔ جو ہمارا پانی ہے یہ تو زمین کا مادہ ہے اور زمین تو بعد میں بنی۔ تو جو بھی تھا اسے پانی سے تعبیر کیا گیا ہے اور قرآن کریم، احادیث مبارکہ اور تفاسیر میں قریب ترین قابل فہم چیز کو بیان کر کے سمجھانا عام ہے۔
بگ بینگ اور قرآن کریم
پھر قرآن پاک کہتا ہے کہ ان ملے ہوئے زمین و آسمان کو ہم نے ایک دوسرے سے جدا کیا۔ سائنس تھیوری پیش کرتی ہے کہ ایک بگ بینگ یعنی بڑا سا دھماکہ ہوا۔ اس تھیوری کی مدد کرنے کے لیے دلائل ہونا ممکن نہیں ہیں۔ لہذا ممکن ہے کہ دھماکہ ہوا ہو اور ممکن ہے کہ نہ ہوا ہو، لیکن یہ یقینی ہے کہ ایک لازوال قوت نے اس ٹھہرے ہوئے پانی میں بھونچال پیدا کر دیا اور وہاں سے انرجی نکلی اور چاروں جانب پھیل گئی۔
اس ایک آیت سے مفسرین کرام نے چار استدلال کیے ہیں اور چاروں ہی کمال ہیں:
1۔ زمین و آسمان ایک جگہ تھے پھر الگ ہوئے۔ ہم آج جانتے ہیں کہ ستاروں اور سیاروں کی تعمیر ایسے ہی ہوتی ہے کہ گیس ہوتی ہے اور اس سے مادہ بنتا ہے جس کی زمین بن جاتی ہے، اور زمین بھی ایک سیارہ ہے۔
2۔ زمین و آسمان تاریک تھے، پھر روشنی ہوئی۔ ہم جانتے ہیں کہ دن سورج سے نکلتا ہے، سورج ہمیشہ سے موجود نہیں تھا اور اس کی غیر موجودگی میں یقیناً تاریکی ہوگی۔
3۔ زمین و آسمان خشک تھے پھر بارش برسی اور کھیتی نکلی۔ ہم جانتے ہیں کہ واٹر سائیکل اسی طرح کام کرتا ہے کہ سمندر سے پانی اٹھتا ہے، پھر برستا ہے اور پھر ہریالی ہو جاتی ہے اور یہ سائیکل ہمیشہ سے ایسے ہی چلتا جا رہا ہے اور جب پہلی بار چلا ہوگا تو اس سے پہلے آسمان و زمین بالکل خشک ہوں گے۔
4۔ زمین و آسمان ایک ایک تھے، پھر ان میں ہر ایک سات کی تعداد میں بنا۔ اس کی کیفیت ہم یقینی طور پر ابھی تک نہیں جانتے۔ جو امکان ہے وہ میں آگے ان شاء اللہ بیان کروں گا۔
فلکیاتی فزکس کا کہنا ہے کہ جب بگ بینگ کے بعد انرجی پھیلنا شروع ہوئی تو وہ بے انتہاء چارج تھی، اس کی فریکوئنسی بہت زیادہ تھی اور اس میں بہت قوت تھی۔ پھر اس نے آہستہ آہستہ ٹھنڈا ہونا شروع کیا۔ انرجی میں عموماً قوارک (ذرات) ہوتے ہیں جو بہت رفتار سے حرکت کر رہے ہوتے ہیں۔ یہ رفتار جیسے جیسے کم ہونا شروع ہوئی تو نیوٹران، پروٹان اور الیکٹران بنے اور پھر ان کے جڑنے سے ایٹم بننے لگے۔ چونکہ کائنات بے انتہا گرم تھی لہذا اس وقت ہلکے ایٹم یعنی ہائیڈروجن اور ہیلیم گیس ہی بن سکتے تھے۔
یہ دونوں گیسیں ستارے بناتی ہیں اور ستاروں کے مرکز میں بھاری عناصر بنتے ہیں۔ جب کوئی بہت بڑا ستارہ اپنی زندگی مکمل کر کے پھٹتا ہے تو اس سے یہ مواد نکل کر خلا میں پھیل جاتا ہے۔ اس مادے سے ہماری زمین اور دیگر سیارے بنے ہیں۔ زمین کی خصوصیت یہ ہے کہ اس میں مادہ ہر لحاظ سے تناسب میں ہے اور اسی لیے اس پر زندگی ہے۔ باقی سیاروں میں کسی میں کوئی چیز کم ہے تو کسی میں کچھ اور۔ چنانچہ آسٹروفزیشنز کے مطابق زمین کا مادہ ستاروں میں تیار ہوا اور ان کے پھٹنے سے پھیل گیا۔ یہ ضروری نہیں ہے کہ اسی ترتیب سے ہوا ہو لیکن مادہ بہرحال تیار ہوا ہے اور اسی لیے ہمارے اردگرد موجود ہے۔ نہ ہوتا تو موجود بھی نہ ہوتا۔
زمین کا مادہ تیار ہونے کے بعد آسمان کی باری آئی (گزشتہ قسط میں موجود قرآنی ترتیب کو ذہن میں رکھیے: زمین کا مادہ، آسمان جو دھواں تھا، زمین کا بچھاؤ)۔ دو ہی چیزیں موجود تھیں: گیس اور ابتدائی مادہ۔ اسے “نیبولا” کہتے ہیں جو ایک بادل کی سی شکل میں موجود تھا۔ چاروں جانب تاریکی تھی۔ آسمان کو بننے کا حکم ہوا تو آسمانِ دنیا میں ایک چمکتا ہوا شعلہ (سورج) وجود میں آیا۔ اس شعلے نے پورے ماحول کو جگمگا دیا۔
اس شعلے نے اپنے قریب موجود مادے اور گیس کو پکانا شروع کیا۔ ہلکی گیسز دور ہٹ گئیں اور بھاری گیسز اور مادے نے مل کر سیارے بنانے شروع کیے۔ چنانچہ سورج کے قریب کے چار سیارے پتھریلے ہیں۔ “پھر وہ متوجہ ہوا آسمان کی جانب جو ایک دھواں تھا، تو اسے اور زمین کو کہا: چاہو یا نہ چاہو، چلے آو! دونوں نے کہا: ہم بخوشی حاضر ہیں۔”
اب باری آئی زمین کی (“اور زمین کو اس کے بعد پھیلایا”)۔ مادہ تو پہلے ہی موجود تھا۔ اس مادے کو ایک جگہ ہونے کا حکم ملا۔ مادہ جمع ہوگیا، گیسز نے مائع کی شکل اختیار کی اور مائع نے ٹھوس بنانا شروع کر دیا۔ آکسیجن گیس زمین کی سطح کے قریب جمع ہوئی۔ سورج کی الٹرا وائلٹ ریز نے اسے توڑا تو وہ اوپر اٹھی اور اونچائی پر اس نے “اوزون” کی تہہ بنا دی۔ اس اوزون کے کور کے اندر زمین کا ماحول محفوظ ہو گیا۔ زمین کا مادہ پھیل گیا۔ زیریں علاقوں میں پانی جمع ہو گیا۔ پانی پر دھوپ پڑی۔ وہ اڑا اور بادل بنائے۔ ہواؤں نے بادل پہاڑوں پر لے جا کر برسائے اور وہاں سے پودوں نے سر اٹھایا اور تناور درخت بن گئے۔ ان درختوں کے پیچھے برف جمع ہونے لگی۔ یہ برف پگھلی اور دریا بنے۔ دریا زمین کی نمکیات کو سمندر میں لے جانے لگے۔ یوں آسمان کی تشکیل کے بعد زمین پھیلی اور اس میں تمام چیزیں ایک ترتیب کے ساتھ جمع ہوتی گئیں۔