حصہ دوم: سات زمینیں اور ڈائنوسارز

سات زمینیں اور ڈائنوسارز

اس سے پہلے کہ ہم بات کریں مخلوقات کی، یہاں دو چیزیں سمجھ لیتے ہیں:

اول: ہمارے ارد گرد جتنا بھی مادہ ہے، چاہے وہ ٹھوس ہو، مائع ہو یا گیس ہو وہ مالیکیولز سے بنا ہے۔ مالیکیولز بنتے ہیں ایٹم سے اور ایٹم بنتا ہے اپنے تین ذرات (نیوٹران، پروٹان اور الیکٹران) سے۔ ان تین کو آپس میں جوڑ کر چار قوتیں رکھتی ہیں: باہمی کشش، الیکٹرومیگنٹک فورس، اسٹرانگ نیوکلئیر فورس اور ویک نیوکلئیر فورس۔ یہ چار قوتیں انرجی ہیں اور یہی انرجی مادے کو اپنی شکل میں رکھتی ہے۔ لہذا مادے کے ہر ایٹم میں انرجی موجود ہوتی ہے۔

دوم: ہمارے ارد گرد آج بھی وہ انرجی موجود ہے جس کا تعلق بگ بینگ سے جوڑا جاتا ہے۔ اسے “کاسمیٹک مائیکروویو بیک گراؤنڈ” کہتے ہیں اور اس کے آلات پر اسے محسوس کیا جاتا ہے۔ اردگرد سے مراد یہ ہے کہ یہ پوری کائنات میں موجود ہے۔ اس کے علاوہ کائنات میں ایک چیز “تاریک مادہ” یا “ڈارک میٹر” کہلاتی ہے جو کشش ثقل پر اپنا اثر ظاہر کرتی ہے لیکن نہ نظر آتی ہے اور نہ ناپی جاتی ہے۔ یہ تمام کائناتی اجسام کے اردگرد ہوتی ہے۔ ان میں سے ہر تھیوری کے مقابلے میں آپ کو کوئی دوسری تھیوری مل جائے گی۔ سمجھنے کی بات یہاں یہ ہے کہ ہمارے اردگرد کائنات میں ایسی بہت سی توانائی موجود ہے جس کے بارے میں ہم اپنے موجودہ سائنسی علم سے کچھ نہیں جانتے۔ یوں ابھی ہمارا سائنسی اور فلکیاتی علم بہت ناقص ہے۔

ایٹم اور اس میں توانائی
Not a complete explanation, only a concept. Created by ChatGPT

سات زمینیں، سات آسمان

جب زمین اور آسمان بنے تو یہ ایک ایک نہیں بنے بلکہ دونوں سات سات بنے۔ آسمان کیسے سات ہیں؟ تو ہم جانتے ہیں کہ وہ تہہ در تہہ سات ہیں (سورہ ملک)۔ شیخ بونی نے یا شاید کسی اور نے اس کی تفسیر میں یہ بھی بیان کیا ہے کہ ہر آسمان میں کوئی ایک سیارہ ہے۔ کسی میں سورج، کسی میں چاند، کسی میں مریخ، کسی میں مشتری وغیرہ۔ یہ تو واقعی ایک حقیقت ہے کہ زمین کے علاوہ سورج کے گرد گھومنے والے سیارے سات ہیں لیکن انہیں سات زمینیں یا سات آسمان کہنا تقریباً ناممکن ہے۔ زمینیں تو ہم انہیں اس لیے نہیں کہہ سکتے کہ یہ آسمان کا حصہ ہیں اور ستاروں اور بروج سے ان کا تعلق ہے۔ اور آسمان اس لیے نہیں کہہ سکتے کہ پھر معراج کی روایت کی تشریح مشکل ہو جاتی ہے۔ اور ویسے بھی ان کے سوا بھی بہت بڑا حصہ آسمان کا رہ جاتا ہے۔

سات زمینیں کیسی ہیں اور کہاں ہیں؟ ہم بالکل نہیں جانتے۔ جو ہم جانتے ہیں وہ دو چیزیں ہیں۔ ایک حضرت تمیم داری رض کی مشہور حدیث جس میں وہ ایک ایسے جزیرے میں پہنچے تھے جہاں دجال تھا اور ایک ایسا شخص تھا جو عجیب الخلقت اور بالوں سے بھرا ہوا تھا۔ اور دوسری ذوالقرنین کی مہم جس میں انہوں نے یاجوج ماجوج کو ایک دیوار کے پیچھے بند کیا تھا۔ یاجوج ماجوج کی تعداد جو صحیح احادیث میں بیان ہوئی ہے وہ اتنی ہے کہ زمین پر کسی قوم پر صادق نہیں آتی۔ لہذا یہ ضروری ہے کہ ہم مانیں کہ وہ آج تک اپنی جگہ سے نہیں نکلے۔ میں اس پر تفصیل سے لکھنے کا ارادہ رکھتا ہوں۔

یہ دونوں چیزیں آج ہماری نظروں سے غائب ہیں۔ ان کو دیکھ کر ہمیں یہ اندازہ ہوتا ہے کہ سات زمینیں یہیں ہماری زمین پر ہیں۔ یہ سات ڈائمینشنز یا جہات ہیں۔ یا یوں کہہ لیں کہ ہماری موجودہ زمین کے سات روپ ہیں۔ میں حصہ اول میں ذکر کر چکا ہوں کہ زمین انرجی سے بنی ہے اور اس کے ہر مادے کے ہر ایٹم میں انرجی ہے۔ اس کے علاوہ ہمارے ارد گرد چاروں جانب ایسی توانائیاں ہیں جنہیں ہم نہ دیکھ سکتے ہیں اور نہ اب تک محسوس کر سکتے ہیں۔ ایسے میں یہ بالکل ممکن ہے کہ توانائی کی کسی اور ترتیب میں موجود زمین پر موجود مخلوق ہمیں اسی طرح نہ دیکھ سکتی ہو جیسے ہم اسے نہیں دیکھ پا رہے۔ ہاں اس دنیا میں ایسے پوشیدہ پورٹل یا مقامات ہیں جہاں سے کوئی گزر جائے تو دوسری جہت میں جا پہنچتا ہے جیسے ذوالقرنین اور حضرت تمیم داری رض پہنچے۔ چونکہ دوسری جہت اسی زمین کا روپ ہے لہذا وہاں کا نقشہ بھی اسی کی طرح ہے۔ لیکن وہاں کے رہائشی اس زمین کی طرح کے نہیں ہیں۔ وہ انسان بھی ہو سکتے ہیں اور جانور بھی، لیکن ان کی کچھ صلاحیتیں ہم سے مختلف ہیں۔ یاجوج ماجوج سیریز میں ان شاء اللہ اس حوالے سے ذکر کریں گے کہ نہ تو وہ اپنی دیوار پر چڑھ پاتے ہیں اور نہ ہی دنیا میں آنے کے بعد کوہ طور یا انسانی قلعوں پر چڑھ پائیں گے۔ ظاہر یہی ہوتا ہے کہ ان میں یہ صلاحیت موجود نہیں ہے۔

ان سات زمینوں میں پھر ہماری زمین “پرائم” تھی، یا کم سے کم ہم یہی سمجھتے ہیں۔ ہم اسی کی بات کرتے ہیں۔ اس زمین پر اللہ پاک کے حکم سے زندگی کا آغاز ہوا اور جلد ہی وہ زندگی بڑے بڑے ڈائناسورز کی شکل میں بدل گئی۔ ہم نہیں جانتے کہ اس زمین پر ڈائناسورز کیوں پیدا ہوئے تھے؟ لیکن یہاں جہاں ایک پتا بھی بے وجہ حرکت نہیں کرتا، ان کے آنے کی بھی وجہ ہوگی۔ جب ان کا کام ختم ہوگیا تو وہ معدوم ہو گئے۔ کیسے معدوم ہوئے؟ کہا جاتا ہے کہ ایک دس کلومیٹر بڑا شہاب ثاقب زمین سے ٹکرایا جس سے دنیا کے جنگلوں میں آگ پھیل گئی۔ اس آگ کے دھویں نے سورج کی روشنی کو روک دیا جس سے زمین پر ایک شدید برفانی سردی کا آغاز ہوا۔ جب دھواں چھٹا تب تک زمین پر ڈایناسورز معدوم ہو چکے تھے۔ یہ نظریہ شواہد کی وجہ سے کافی مضبوط ہے اور شہاب ثاقب کے نشانات و علامات آج بھی زمین پر موجود ہیں۔ جو مخلوقات بچیں وہ ایسی تھیں جو اپنی بقا کر سکتی تھیں۔

شاہب ثاقب کا مقام
By NASA/JPL-Caltech, modified b – Modified NASA image, with scale and labels to increase clarity by David Fuchs.Original: http://photojournal.jpl.nasa.gov/catalog/PIA03379, Public Domain, https://commons.wikimedia.org/w/index.php?curid=4229567
Facebook
Twitter
LinkedIn